عمر راشد
ہندوستان بھر میں کسی نہ کسی بہانہ سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور نفرت پھیلانے کا کام حکمراں جماعت کے رہنمائوں سے لے کر خود ساختہ مذہبی رہنما کررہے ہیں۔ حالانکہ سادھو سنتوں، سوامیوں اور پنڈتوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انسانیت کا کام کرتے ہیں۔ ان سے محبت کی امید کی جاسکتی ہے نفرت کی نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یہ میٹنگ 8 ڈسمبر کو منعقد ہوئی تھی جس کے بعد سارے ملک میں گہری تشویش کا اظہار کیا جانے لگا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بے شمار وکلا اور حقوق انسانی کے گروپوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھننہ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے شیکھر کمار یادو کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے اور انہیں جج کے عہدہ سے معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس نے شیکھر کمار یادو کے حوالہ سے منظر عام پر آئی میڈیا رپورٹس کا نوٹ لیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کالجم نے شیکھر یادو کی طلب کرتے ہوئے انہیں آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے اور محتاط رہنے کا انتباہ دیتے ہوئے چھوڑدیا حالانکہ ایسے ججس کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردینا چاہئے تھا۔ اس مسئلہ کی سنگینی کو ملحوظ رکھتے ہوئے سرینگر سے منتخب ہوئے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ روح اللہ مہدی نے نفرت انگریز و اشتعال انگیز تقریر کرنے والے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کرنے کا اعلان کیا اور اس کے لیے باقاعدہ تیاری شروع کردی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کے رکن اسمبلی شیلہ منی ترپاٹھی نے جو فرقہ پرستی کیلیے بدنام زمانہ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے مشیر ہیں الہ آباد ہائی کورٹ جج کے خیالات کی تائید و حمایت کی حالانکہ اس کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔ آپ کو بتادیں کہ وشواہندو پریشد کے قانونی سل کا اجلاس الہ آباد ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں منعقد ہوا جس میں یادو نے مسلمانوں کے خلاف بکواس کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان اکثریت (ہندوئوں) کی خواہش کے مطابق ہی چلے گا۔ اس طرح انہوں نے ہندوئوں کے اتحاد کے لیے بی جے پی کے لگائے گئے اشتعال انگیز نعرے ’’ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے‘‘ کی توثیق کی۔ ایک جج رہتے ہوئے شیکھر یادو نے مسلمانوں کے خلاف ’’کٹ ملا‘‘ جیسا لفظ بھی استعمال کیا اور کہا کہ کٹ ملا چار چار بیویاں رکھتے ہیں اور تین طلاق دیتے ہیں جو ملک کیلئے خطرناک اور مہلک ہے۔ یادو نے 34 منٹ کی اپنی متنازعہ تقریر میں مسلم معاشرہ کی برائیاں بیان کی ان کا کہنا تھا کہ مسلم بچوں سے ایثار اور شرافت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ وہ بچپن سے ہی جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھتے ہیں اس کے برعکس ہندو بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی رحمدلی کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔ لہذا ہندوئوں کے بچوں میں عدم تشدد اور ایثار و خلوص کا رجحان پایا جاتا ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ جس جج نے مذکورہ نفرت انگیز ریمارکس کئے ہیں اس نے ماضی میں بھی مسلمانوں کا ہندوئوں سے تقابل کرتے ہوئے ان کے بارے میں منفی خیالات ظاہر کئے تھے۔ ان کے خیال میں ہندوئوں کو بچپن سے ہی جذبہ ہمدردی سکھایا جاتا ہے۔ شائد اسی وجہ سے ہم میں زیادہ ایثار پایا جاتاہے اور ہم دوسروں کو دینے والے ہوتے ہیں ہم کو دوسروں کی تکلیف دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے (مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد میں بڑی بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے انہیں زندہ جلاکر شہید کیا جارہا ہے، درختوں پر پھانسی دی جارہی ہے، ان کے مکانات پر بلڈوزر چلاکر زمین دوز کیا جارہا ہے، مساجد پر یہ کہتے ہوئے دعوے کئے جارہے ہیں کہ انہیں منادر توڑ کر بنایا گیا، دلت لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کرکے ان کی زندگیوں کے چراغ گل کئے جارہے ہیں۔ اس درندگی پر انہیں تکلیف اور غم کیوں نہیں ہورہا ہے) کیوں کہ ہم اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی خدا کی طرف رجوع کردیتے ہیں وہ منتراس اور ویداس پڑھتے ہیں انہیں عدم تشدد کے بارے میں بتایا جاتا ہے لیکن تمہاری تہذیب میں بچوں کو ان کے بچپن سے ہی جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ایسے میں تم (مسلمانو) کیسے اپنے بچوں سے ایثار و ہمدردی اور شرافت کی امید کرسکتے ہو۔
واضح رہے کہ روح اللہ مہدی ایم پی کا کہنا ہے کہ وہ شیکھر یادو کو اس کے بعہدہ سے ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ میں تحریک مواخذہ پیش کرنے والے ہیں اور اس تحریک کو پیش کرنے کے لیے اس پر 100 ارکان پارلیمان کی دستخطیں ضروری ہیں۔ اب تک 7 ارکان پارلیمان بشمول پارلیمنٹ میں حیدرآباد کی نمائندگی کرنے والے اسد الدین اویسی، سی پی آئی ایم ایل (لبریشن) کے سدھاما پرساد (بہار) اور سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان سنبھل ضیاء الرحمن برق نے دسخطیں کئے ہیں۔ انہوں نے مکتوب میں پرزور انداز میں یہ بھی کہا کہ عدالت انصاف میں اس قسم کے افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہونی چاہئے۔ اس قسم کے رکن نے بینچ، عدالت اور بحیثیت مجموعی عدالتی نظام کی توہین کی ہے۔ پرشانت بھوشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ یادو نے مسلمانوں کے خلاف ناقابل قبول اور نامعقول بیان دیا ہے۔ ایک طرح سے انہوںنے زہر اگلا ہے۔ اس طرح کے لوگوں اور بیانات کی ہندوستانی معاشرہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یادو نے اپنے بیان کے ذریعہ جج کے ایک باوقار عہدہ کی اہمیت گھٹاکر عدلیہ اور سماج کو شرمسار کیا۔ اس نے قانون کی حکمرانی کو خطرہ میں ڈالدیا۔ پرشانت بھوشن کے مطابق یادو کے خیالات دستور کی دفعات 14, 21, 25, 26 اور دستور کی تمہید میں جو کچھ کیا گیا اس کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آل انڈیا لائرس اسوسی ایشن فار جسٹس (AILAJ) نے بھی جو ملک میں وکلاء کی ایک بڑی تنظیم ہے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے جج یادو کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کرنے اور ان کو سپرد کئے گئے تمام انتظامی اور عدالتی کام واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ کیوں کہ یادو کا بیان کھلا تعصب، جانبداری اور کسی ہائی کورٹ جج کے غیر دستوری رویہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔