بالی ووڈ شدید متاثر
امجد خان
ماضی میں بالی ووڈ میں ایسی فلمیں تیار کی جاتی تھیں جن سے لوگوں کو محبت ، مروت ، دوستی ، امن و آشتی ، مساوات باالفاظ دیگر انسانیت کا درس اور پیام ملا کرتا تھا۔ ہندی فلم انڈسٹری میں ویسے تو سرٹیفکیٹ ہندی فلم کا دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ہندی فلموں میں زیادہ تر اُردو ہی چھائی رہتی چاہے وہ ڈائیلاک ہوں یا پھر نغمے اور غزلیں وغیرہ لیکن 2014 ء کے بعد سے ایسا لگتا ہیکہ بالی ووڈ کو کسی کی نظر لگ گئی ہے اور فرقہ پرستوں نے بالی ووڈ کو بھی تقریباً فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا ہے۔
ایک بات ضرور ہے کہ ملک میں جب سے بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے زندگی کے ہر شعبہ کو چاہے وہ تعلیمی شعبہ ہو یا مقدس پیشہ طب ہر شعبہ حیات کو مذہبی رنگ میں رنگا جارہا ہے اور فرقہ پرستی کی آلودگی میں آلودہ کیا جارہا ہے ۔ بحیثیت وزیراعظم مودی کی یہ تیسری میعاد ہے اور ان تینوں میعادوں میں ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جمہوریت کے چار ستونوں کو نقصان پہنچا خاص طورپر عدلیہ پر بھی سوالات اُٹھائے گئے ۔ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں جو فیصلہ آیا اس پر شکوک و شبہات کا سلسلہ جاری ہے ۔
بہرحال سب سے پہلے بالی ووڈ کی بات کرتے ہیں ۔ 2014 ء سے بالی ووڈ کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ۔ ان فلموں میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے ، اُنھیں دہشت گردوں ، انتہاپسندوں اور معاشرہ میں بے چینی پیدا کرنے والوں کے طورپر پیش کیا جارہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں ایسی فلمیں منظرعام پر آئیں جن میں مسلمانوں کو ویلن کے کردار میں پیش کیا جارہا ہے ، آئی ایس آئی جیسی پاکستان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے اُنھیں ایجنٹس بتایا جارہا ہے ۔ فلموں میں غنڈوں کو مسلمانوں کے لباس میں پیش کیا جارہاہے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو بالی ووڈ کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہاہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں ۔
آپ سب جانتے ہیں کہ بالی ووڈ اور بالی ووڈ اداکار ہر کسی کے محبوب ہوا کرتے تھے ۔ اگر ہم اپنے بچپن کو ہی یاد کریں تو اندازہ ہوگا کہ بچپن و لڑکپن میں ہم نے بالی ووڈ کی رومانی اور سبق آموز فلمیں دیکھی ہیں جس میں اکثر اُردو شعراء و نغمہ نگاروں کے اُردو نغمے اور گیت ہوا کرتے تھے ۔ وہ نغمے آج کے پرفتن دور میں بھی ہمیں محبت و انسانیت کا درس دیتے ہیں۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے میں جہاں فرقہ پرست بالی ووڈ فلموں کا سہارا لے رہے ہیں وہیں گودی میڈیا بھی کسی طرح پیچھے نہیں ۔ 2014 ء تک بھی ہمارے ملک میں صحافت آزاد ہوا کرتی تھی لیکن اب اکثر میڈیا ہاؤس کو بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی ۔ امیت شاہ سے قربت رکھنے والے صنعتی گھرانے خریدچکے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق خبریں اور رپورٹس پیش کرتے ہیں ۔ غیرضروری چیزوں کو خاص طورپر مسلمانوں سے جڑی خبروں کو وہ ایسے پیش کرتے ہیں جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہواور جب ملک و عوام کو درپیش سنگین مسائل جیسے بیروزگاری ، مہنگائی ، خواتین ، دلتوں اور اقلیتوں پر مظالم اُن کے ساتھ ناانصافیوں ، غربت ، بھوک و افلاس کی بات آتی ہے تو یہ ہندو۔مسلم ، مندر۔مسجد کرنے لگ جاتے ہیں ۔ بہرحال ہم بالی ووڈ کی بات کررہے تھے ۔ 11 برس قبل ہندی فلمیں ہندوستانی تہذیب خاص طورپر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کیاکرتی تھی لیکن اب ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جو فرقہ پرستی کے فروغ اور فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کی تکمیل کررہی ہیں۔
مثال کے طورپر دی بنگال فائیلس ، ایمیوران ، دی کیرالہ اسٹوری ، 72 حوریں اور پریش راول کی فلم دی تاج اسٹوری ایسی فلمیں ہیں جس کے بارے میں بلا شک و شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو بدنام کرنے ، بھولے بھالے ہندوستانیوں کے ذہنوں میں تعصب و جانبداری کا زہر بھرنے اور حکمراں بی جے پی کو ہر طرح کا سیاسی فائدہ پہنچانے کیلئے بنائی گئیں۔ پریش راول کی فلم دی تاج اسٹوری میں دنیا کے سات عجائب میں سے ایک اور یادگار محبت تاج محل کی تاریخی حیثیت پر سوال اُٹھایا گیا ہے ۔
31 اکتوبر 2025 ء کو نمائش کے لئے پیش کی گئی ۔ اس فلم میں جان بوجھ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ تاج محل کو مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی چہیتی بیوی ممتاز محل کی یاد میں اور اُن کے لئے مقبرہ کے طورپر تعمیر نہیں کروایا بلکہ یہ تیجو محل ہے ۔ دوسری طرف 2023ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم 72 حوریں بھی مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی۔ اس فلم کو انگریزی اور دیگر دس ہندوستانی زبانوں آسامی ، بنگالی ، بھوجپوری ، کنڑی ، ملیالم ، کشمیری ، مراٹھی ، پنجابی ، ٹامل اور تلگو میں ریلیز کیاگیا۔ بنگال فائیلس جیسی فرقہ پرستی کو ہوا دینے والی فلم کثمیر فائیلس بنانے والے ویویک اگنی ہوتری کو جو کشمیر فائیلس بناکر آپے سے باہر ہوچکا تھا زبردست جھٹکہ لگا ۔ اس فلم میں اس طرح کا جھوٹ پیش کیا گیا جس طرح کشمیر فائیلس میں بے بنیاد اور جھوٹی باتیں اور کہانیاں پیش کی گئیں۔ فرقہ پرستی کو فروغ دینے والے ویپول امرت لال شاہ نے دی کیرالہ اسٹوری بنائی ۔ 15-20 کروڑ کے بجٹ سے بنائی گئی، اس فلم نے 303.97 کروڑ روپئے کا بزنس کیا ۔ اس فلم میں بھی جھوٹ کا سہارا لیکر مسلمانوں کو دہشت گردی اور آئی ایس آئی کیلئے کام کرنے والا بتایا گیاجبکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے بش جونیر نے خود کہا تھا کہ دہشت گردانہ واقعات میں کوئی ہندوستانی مسلمان ملوث نہیں ہے ۔ مودی حکومت نے اس فلم کو تفریحی ٹیکس سے استثنیٰ دیا ، یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کیلئے چھٹی بھی دی ۔ فلم کی کہانی وویک اگنی ہوتری نے لکھی اور اس کی ہدایت بھی دی ۔ 15-25 کروڑ بجٹ سے بنائی گئی اس فلم نے 340.92 کروڑ روپئے کا بزنس کیا ۔
غرض بی جے پی اور فرقہ پرستوں کے حامی فلمسازوں نے بالی ووڈ جیسے تعصب و جانبداری سے پاک انڈسٹری کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا ڈالاچنانچہ یہ خطرناک رجحان صرف بالی ووڈ میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ میں پروان چڑھ گیا ہے اور افسوس صد افسوس کہ جمہوریت کو بچانے کی بجائے اسے تباہی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور بی جے پی ہندوستان کی تاریخ کو ازسرنو رقم کررہی ہے اور میڈیا سے لیکر بالی ووڈ میں اگر کوئی مودی حکومت پر تنقید کرتا ہے تو وہ اداروں ، ملازمتوں اور روزگار سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مودی کے ارب پتی دوست اُن کے اداروں ( ٹی وی چیانلوں ) کو ڈرا دھمکاکر جھوٹے مقدمات درج کرکے خرید لیتے ہیں ۔