ایک خط :
پروفیسر شمیم علیم
جناب عمران پرتاپ گڑھی میری اور تمام اقلیتوں کی طرف سے آپ کو اس عہدہ کی نامزدگی پر بہت بہت مبارکباد۔
کانگریس کمیٹی نے جو آپ کے کندھوں پر یہ دوشالہ پہنایا ہے۔ وہ آپ کی عمر اور تجربہ کو دیکھتے ہوئے نہایت ہی اعزاز کی بات ہے۔ شاید ماضی میں کبھی اتنے کم عمر شخص کو اتنی بڑی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع نہیں دیا گیا ہو۔ آج تمام اقلیتیں خاص کر مسلمانوں کی پراُمید نظریں آپ کی طرف ہیں۔ ماضی میں یکے بعد دیگرے شخصیتیں اس کرسی پر بیٹھیں۔ انہوں نے کچھ کرنے کی کوششیں بھی کی، مگر زیادہ تر اسکیمات صرف کاغذ کی زینت بن کر رہ گئیں۔ کوئی بھی شخص ایسا نظر نہیں آیا جو اس قوم میں ایک نئی روح بھونک سکتا جو اس کو ایک نیا رخ ایک نئی منزل دے سکتا لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ اب مسلمانوں کو ایک صحیح رہنما مل جائے گا۔ اس امید کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ اقلیتوں کیلئے نئے نہیں ہیں۔ کئی سال سے وہ بطور شاعر آپ کو جانتے ہیں، آپ کو پسند کرتے ہیں۔ آپ کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ ہندوستان میں ہزاروں شاعر ہیں اور مشاعرے ہوتے ہیں۔ واہ واہ بھی ہوتی ہے لیکن میں نے کوئی ایسا شاعر نہیں دیکھا جس کے چاہنے والوں کی اس طرح بھیڑ جمع ہوجاتی ہو۔ لوگوں کو آپ سے ایک جنون کی طرح محبت اور عقیدت ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیوں لوگ اس طرح آپ کے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ کچھ تو اس میں آپ کی شاعری کی آپ کی سوچ کا دخل ہے جو ہر انسان کے دل میں اُتر جاتی ہے۔ کچھ اس آواز کا جو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور کچھ آپ کی شخصیت کا جو ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آپ کے چاہنے والوں میں صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ ہر قوم کے وہ لوگ شامل ہیں جو آپ کے خیالات سے متفق ہیں۔ آپ کی بیباکی، آپ کی شخصیت جو سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرتی ،آپ نے کبھی ہندو۔ مسلم میں امتیاز نہیں کیا، آپ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار ہیں ۔آپ نے خود کہا تھا۔ میں غالبؔ نہیں اقبالؔ بننا چاہتا ہوں۔ آج اللہ نے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ آپ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
عمران صاحب! آپ کا کام بہت مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ آپ کے سامنے ایک وسیع پنجر میدان ہے جسے آپ کو شاداب کرنا ہے۔ ہندوستان میں صرف مسلمان نہیں پانچ اور اقلیتیں ہیں جن کیلئے آپ کو کام کرنا ہے۔ ہندوستان میں 35 ریاستیں اور یونین ٹریٹریز ہیں۔ آپ اکیلے کچھ نہیں کرسکتے۔ جبکہ آپ کے ساتھ آپ کے ہم جماعتوں کا تعاون نہ ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ خود ہر ریاست کا دورہ کریں، وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی نشاندہی کریں اور ان کے تعاون سے کام شروع کریں۔
دوسرا نکتہ جس پر آپ نے بھی اکثر توجہ دلائی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں حکومت کے نظم و نسق میں ضم ہوجانا چاہئے۔ اگر حکومت کے ہر محکمہ میں ہر سیڑھی پر ہمارا ایک سپاہی ہو تو حالات خودبخود بہتر ہوتے جائیں گے۔ اگرچہ وہ سیڑھی ایک پولیس کانسٹیبل کی ہو یا IPS آفیسر کی ہر کورٹ میں ہر کچہری میں ہمارے لئے لڑنے والے موجود ہونا چاہئے۔ جیسا کہ مقصد ہمارے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینئر بناکر پیسہ کمانا نہ ہو بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ساجھیداری کرنا ہے، لہٰذا اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ریاست میں ایسے ادارے قائم کئے جائیں جو نوجوانوں کو صحیح معنوں میں مدد کرسکیں۔ میرا ذاتی تجربہ بتاتا ہے کہ یہ پچھلے کئی دہوں سے سرکار نے جگہ جگہ IAS کوچنگ سنٹرس کیلئے اقلیتوں کیلئے ادارے کھولے۔ انہیں مالی امداد دی۔ میں شخصی طور پر ان اداروں سے وابستہ رہی ہوں لیکن یہاں وہ جذبہ خدمت وہ جنون دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ یہ ادارے صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ اس طرح کے اداروں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نتائج کیا ہے، وہ کیوں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔
تعلیم کی بات شروع ہونا چاہئے۔ پرائمری اسکولوں سے مدرسوں سے جو بنیاد کے پتھر ہے۔ یہاں موقع نہیں ہے کہ میں ان تمام چیزوں کا تفصیلی جائزہ لوں۔ یہ تو ہر ریاست میں اپنا معاملہ ہے۔ اسکولنگ ختم ہوتے ہی بچوں کو Job Oriented کورسیس کی طرف راغب کروانا چاہئے۔ ان کو مالی اور دیگر سہولتیں دی جائیں تاکہ جلد ہی وہ اپنے سروں پر کھڑے ہوسکیں۔ اس ترقی کے دور میں لڑکے اور لڑکیوں کا حصہ برابر ہونا چاہئے۔ لڑکیوں کو ہم اس قابل بتادیں کہ وہ خود اپنی کفالت کرسکیں۔ غریب طبقہ میں یہ بات عام ہے کہ مرد شادی تو کرلیتا ہے لیکن خاندان کی کفالت نہیں کرسکتا۔ بیروزگاری اور شراب نوشی عام ہے۔ بعض ریاستیں شادی کیلئے اکثر بڑی بڑی رقم (50 ہزار تا ایک لاکھ روپئے) دیتی ہیں تاکہ غریب لڑکیوں کی شادی ہوجائے لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور بڑھ جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس پیسہ کا صحیح استعمال ان کی تعلیم اور فنی مہارت کیلئے کیا جائے۔ ہر گاؤں میں خواتین کیلئے جگہ جگہ ایسے ادارے کھول دیئے جائیں جہاں وہ کچھ نہ کچھ کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا گذارہ کرسکیں۔ بجائے اس کے کہ وہ ناکارہ مردوں کی گالیاں اور جوتے کھاکر زندگی گزاریں۔
عمران صاحب! ہمارے معاشرہ کے ایسے مسائل ہیں کہ آپ کہتے کہتے تھک جائیں گے کہ حیران ہوں گے، آنکھ سے کیا گیا دیکھوں دراصل کمی نہ مسائل کی ہے نہ حل کی۔ کمی ایسے لوگوں کی ہے جن کی زندگی کا مقصد اس تاریکی کو ختم کرکے لاکھوں اندھیری زندگیوں میں روشنی لانا ہو۔ کیا آپ یہ کام کرسکیں گے۔ یہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اللہ نے آپ کو ایک موقع دیا ہے۔ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کیجئے۔ ہم سب کی دعائیں، آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں اس مرد مجاہد کی تلاش ہے جو اقبالؔ کے ذہن میں پنپ رہا تھا۔
نیک تمناؤں کے ساتھ
آپ کے مداح