رام چندر گوہا
راقم الحروف حال ہی میں پھر سے واٹر کراکر کی 1966ء میں تحریر کردہ کتاب
“Nehru: A Contemprory Estimate”
(نہرو : عصر حاضر کا ایک تخمینہ) کا پھر سے مطالعہ کررہا تھا۔ اس کتاب میں انتہائی بہتر انداز میں ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی زندگی اور ان کی میراث پر روشنی ڈالی گئی ہے اور میری نظر میں شاید یہ پنڈت نہرو کی خدمات اور ان کی میراث پر لکھی گئی کتابوں میں ایک بہترین کتاب ہے جس میں نہرو کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے تعلق سے بھی دلچسپ باتیں بیان کی گئی ہیں جس میں ہندوستان کے اس حصہ کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا گیا جہاں میں رہتا ہوں۔ جمہوریہ ہندوستان میں جنوبی ہند کو بہت کم شمار کیا گیا یعنی ہندوستان میں اس حصہ پر ایک طرح سے زیادہ توجہ نہیں دی گئی جو جنوبی ہند کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کئی ایک اہم چیزوں میں جنوبی ہند کو شمالی ہند پر ایک طرح کی برتری حاصل ہے۔ خاص طور پر یہ ہندوستان کا وہ حصہ ہے جہاں تشدد کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ جنوبی ہند میں شمالی ہند کی بہ نسبت مسلم دشمنی کا رجحان بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ یہاں کی جامعات میں بہت ڈسپلنپایا جاتا ہے اور جرائم کی شرح کا فقدان بھی اس کی خوبیوں میں اضافہ کرتا ہے۔ جنوبی ہند کو ہندوستان کے دیگر علاقوں پر اس لئے بھی برتری حاصل ہے کیونکہ یہاں کا معیار تعلیم بہت بلند ہے۔ اس علاقہ میں بہتر حکمرانی یہاں کی صاف صفائی ہے۔ رشوت ستانی و بدعنوانی کی انتہائی کم شرح بھی اسے دوسرے علاقوں سے برتر بناتی ہے۔ جنوبی ہند کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں ہندو حیات ِنو یا اس کے احیاء کا بہت کم رجحان پایا جاتا ہے۔ کراکر کے اپنی کتاب میں مذکورہ الفاظ تحریر کرنے کے نصف صدی (50 سال بعد) ماہرین معاشیات سیمول پال اور کلاسیتا رام سریدھر نے ایک “The Paradox of India’s North South Divide” (ہندوستان کی شمال جنوب تقسیم کا تضاد) نامی ایک کتاب شائع کی جس میں بہت بہتر انداز میں اعداد و شمار پیش کئے گئے اور ان میں زیادہ تر اعداد و شمار سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ تھے۔ اس کتاب میں مدلل انداز میں بتایا گیا کہ ہندوستان کی معاشی ترقی کے لحاظ سے شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبی ہند نے کہیں زیادہ بہتر مظاہرہ کیا ہے۔ پال اور سریدھر نے اس کتاب میں نے دو طرح کا تقابل کیا۔ پہلے ان لوگوں نے جنوبی ہند کی ایک بڑی ریاست ٹاملناڈو کا شمالی ہند کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش سے تقابل کیا۔ پھر دونوں نے اپنی توجہ متعلقہ علاقوں پر مرکوز کرکے جنوبی ہند کی چار اہم ریاستوں ٹاملناڈو، کرناٹک، غیرمنقسم آندھرا پردیش اور کیرلا کا شمالی ہند کی چار اہم ریاستوں اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے تقابل کیا۔
پال اور سریدھر نے اپنی کتاب میں اس تقابلی جائزہ کیلئے جو ڈیٹا استعمال کیا، وہ سال 1960ء سے شروع ہوتا ہے۔ جب ٹاملناڈو میں شہریوں کی فی کس اوسط آمدنی اترپردیش کے شہریوں کی فی کس اوسط آمدنی سے 51% زیادہ تھی اور 1990ء کے اوائل میں فرق یا تفاوت گھٹ کر 39% ہوگیا۔ تاہم بعد کے برسوں میں یہ تفاوت بڑی تیزی سے بڑھنے لگا اور پھر 2005ء میں ٹاملناڈو کے ایک متوسط شہری نے اترپردیش کے ایک متوسط شہری سے 128% زیادہ کماتی کی یعنی ٹاملناڈو کے متوسط شہری کی فی کس آمدنی یوپی کے متوسط شہری کی فی کس آمدنی سے 128% زیادہ رہی (آن لائن جو اعداد و شمار دستیاب ہیں، اس میں کہا گیا کہ 2021ء تک اس خلیج یا فرق میں تقریباً 300% اضافہ ہوا) اس کتاب میں جنوب اور شمال (جنوبی اور شمالی ہند) کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اس کتاب میں یہی بتایا گیا کہ 1960-61ء میں فی کس اوسط آمدنی کے معاملے میں جنوبی ہند اور شمالی ہند میں صرف 39% کا فرق باقی رہ گیا۔ چالیس سال بعد یہ خلیج بڑھ کر 101% ہوگئی۔ اب 2021ء میں یہ فرق مزید بڑھ گیا۔ سردست پال اور سریدھر نے چار ریاستوں کے بارے میں جو دلائل اور اعداد و شمار پیش کئے تھے، چار شمالی ریاستوں کی سالانہ اوسط فی کس آمدنی تقریباً 4000 امریکی ڈالرس ہے۔ اس کے برعکس چار جنوبی ریاستوں میں سالانہ اوسط فی کس آمدنی 10 ہزار امریکی ڈالرس سے کچھ زیادہ ہے یا 250% زیادہ ہے۔ پال اور سریدھر نے جس طرح ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ایسے شعبے ہمیں جہاں جنوبی ہند کی ریاستوں نے شمالی ہند کی ریاستوں سے کہیں زیادہ بہتر مظاہرہ کیا ہے۔ پہلا شعبہ فروغ انسانی وسائل کے اشاریئے ہیں۔ جیسے خواتین میں خواندگی کی شرح نومولود کی شرح اموات، زندگی یا عمر کا اوسط، دوسرے معاشی ترقی کے اہم شعبے جیسے فنی تعلیم، بجلی کی پیداوار ،معیار زندگی اور سڑکیں وغیرہ پہلے عناصر کا جو مجموعہ ہے، وہ صحت مند و تعلیم یافتہ شہری تیار کرتے ہیں تاکہ وہ جدید معیشت کے عمل میں شامل ہوسکیں اور اپنا حصہ ادا کرسکیں۔ جبکہ دوسرے عناصر کا جو مجموعہ ہے، اس نے انہیں (ریاستوں کو ) بہت زیادہ شرح پیداوار اور مینوفیکچرنگ و خدمات کے شعبہ و بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کے قابل بنایا۔
یہ سب جاننے اور سمجھنے کیلئے کہ حالیہ برسوں کے دوران جنوبی ہند نے شمالی ہند کی بہ نسبت بہت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیسے کیا۔ ہمیں چاہئے کہ اس کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیں۔ ماضی کی صدیوں میں واپس جاکر دیکھیں۔ صرف پچھلے چند دہوں تک نہیں بلکہ بیرونی تاجرین اور سیاحوں کی ساحلوں پر آمد کا جائزہ لیں اور کھلے ذہن کے ساتھ سوچ و فکر کریں اور پھر موجودہ حالات پر غور کریں۔ اس سے پتہ چلے گا کہ جنوبی ہند نے ملک کی تقسیم کی دہشت کا مشاہدہ نہیں کیا اور اسے تقسیم کے تلخ تجربات سے بھی گزرنا نہیں پڑا۔ سماجی سطح پر برہمنوں کی برتری اور اجارہ داری کے خلاف شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبی ہند میں چیلنج سب سے پہلے کھڑے ہوئے۔ ممتاز مفکر و دانشور سری نارائنا گرو اور پیریار نے ذات پات اور جنس کے تعلق سے مساویانہ طریقہ کار اختیار کیا اور مساوات پر زور دینے لگے۔ ویسے بھی جنوبی ہند میں بے شمار ذاتیں ہیں جو کاشت کار کی حیثیت سے کام کرتی ہیں یعنی کہ کسان ہیں ۔ اسی طرح افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بھی غیرمعمولی ہے۔
