جگدیپ دھنکر نے آخر استعفیٰ کیوں دیا؟

   

19 سال بعد بے قصوروں کو اِنصاف ملا

روش کمار
نائب صدرجمہوریہ جگدیپ دھنکر نے استعفیٰ دے دیا اور اب اُن کے اچانک استعفے کو لے کر سیاسی و سماجی اور صحافتی حلقوں میں بحث و مباحث ہونے لگے ہیں اور ان حلقوں کا ایک سوال مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ آخر جگدیپ دھنکر نے استعفیٰ کیوں دیا؟ جبکہ دوسرے سوالات میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ آخر کس نے اور کیوں جگدیپ دھنکر کو نائب صدرجمہوریہ اور صدرنشین راجیہ سبھا کے عہدہ سے مستعفی ہونے کیلئے مجبور کیا؟ اور ان کے استعفے کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہیں۔ بہرحال اب یہ سوال گردش کرنے لگا ہے کہ جگدیپ دھنکر نے استعفیٰ کیوں دیا اور وزیراعظم نریندر مودی، ان کے استعفے پر کیوں خاموش ہیں۔ اس کا پتہ تو نہیں چل رہا ہے۔ صرف اندازے قائم کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان کے نائب صدرجمہوریہ کے استعفے اور اس کی وجوہات کو لے کر ملک تاریکی میں ہے۔ حکومت اگر سازشوں کی طرح چلنے لگی تو قیاس آرائیوں کو لگام دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ نائب صدرجمہوریہ کا استعفیٰ ہوا، یہ ایک دستوری عہدہ ہے کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ جس فرد پر اس عہدہ کے احترام و وقار کو کچلنے کے لگاتار الزامات عائد ہوتے رہے، آپ ان کے استعفے کو لے کر سیاست سے وقار اور شراکت کی اُمید کررہے ہیں۔ اس کا مطلب آپ ظالم سیاست سے انجان ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مودی حکومت دستوری وقار و احترام کو لے کر اچانک چوکس ہوگئی ہے یا اچانک ہوش میں آگئی ہے اور نائب صدرجمہوریہ سے استعفے لے رہی ہے۔ مودی سرکار کے کئی گورنروں پر سپریم کورٹ کے خطرناک ریمارکس ہیں۔ ٹاملناڈو کے گورنر آر این روی پر کی گئی تنقید کو یاد کیجئے، انہیں تو نہیں ہٹایا گیا، صحت میں بہتری لانے کیلئے نائب صدر کا استعفیٰ ہوا ہے، اس کے بعد بھی آپ یہ امید نہیں کرسکتے کہ مودی حکومت دستوری ذمہ داریوں کی صحت میں بہتری لانے والی ہے۔ جب جگدیپ دھنکر نے استعفیٰ دیا وہ مودی ۔ شاہ کی سیاست کی وراثت سے باہر نہیں گئے بلکہ اس وراثت میں دھنکر جیسے کئی اور گورنرس اور افراد ہیں جو دستوری عہدوں کی حرمت سے ابھی بھی کھلواڑ کررہے ہیں۔ جگدیپ دھنکر مودی ۔ شاہ کی سیاست کے قریبی لوگوں میں سے رہے ہیں۔ اس دائرہ سے وہ دھکا دے کر باہر کئے گئے یا انہوں نے خود کا راستہ چنا ہے۔ استعفیٰ واپس لینے کا دباؤ تک نہیں ڈالا گیا اور منظور کرلیا گیا۔ استعفے کی ایک ہی وجہ بتائی جارہی ہے اور اس سے کوئی اتفاق نہیں کرتا اور نہ کوئی اس سے خوش ہے۔ صحت کا خیال رکھنے کیلئے نائب صدرجمہوریہ کے عہدہ سے بھلا استعفے کون دیتا ہے۔ 10 جولائی کو جگدیپ دھنکر ، جواہر لال نہرو وشوا ودیالیہ میں کہہ رہے تھے کہ اگست 2027ء تک اپنی میعاد کے ختم تک اپنے عہدہ پر قائم رہیں گے جبکہ کوئی ناگہانی بات نہ ہو۔ 21 جولائی کو صحت کا خیال رکھنے کیلئے استعفے دے دیتے ہیں۔ اسی دن جب دو دن بعد 23 جولائی کو ان کے سرکاری دورہ راجستھان کا اعلان کیا جاتا ہے تو کل ملاکر بات یہ ہے کہ ان کا استعفیٰ یہ بتا رہا ہے کہ ملک کی سیاست دو لوگوں کے کمرہ میں قید ہوگئی ہے اور کسی کو اس کے علاوہ کچھ پتہ نہیں۔ غور سے دیکھئے کہ قیاس آرائیوں اور مباحث کی سوئی کہاں آکر رُکتی ہے اور کہاں سے بھاگ جاتی ہے۔ میں ، وزیراعظم مودی کی بات کررہا ہوں، ایسا کب ہوتا ہے، استعفیٰ نائب صدرجمہوریہ نے دیا اور وزیراعظم نریندر مودی چپ ہوگئے۔ وزیراعظم مودی کی خاموشی ہی پارٹی کی لائن بن گئی۔ بی جے پی کے تمام لیڈران چپ ہوگئے۔ جو فرد بنگال کے گورنر سے لے کر ہندوستان کے عہدہ نائب صدرجمہوریہ پر فائز رہتے ہوئے تمام دستور اقدار و اصولوں سے کھیلتا رہا ، اپنی حرکتوں سے وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی خواہشات کو پورا کرتا رہا، وہی فرد آج اتنا ان کیلئے بیکار ہوگیا کہ ان کے دستوری عہدہ سے استعفیٰ دینے کے بعد رسم ادائیگی کیلئے بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ وزیراعظم مودی کی خاموشی کچھ اور ہے، اسے ہم اَنا کی خاموشی کہہ سکتے ہیں کہ میرے آگے کوئی کچھ نہیں، میں ہی میں ہوں۔ وزیراعظم تو اس طرح چپ ہوگئے کئی گھنٹوں تک چپ رہے۔ جیسے 21 جولائی کی رات دہلی میں زور کی آندھی آئی، بجلی اور فون کے سارے کھمبے گر گئے، تار ٹوٹ گئے، اس لئے وزیراعظم کا نائب صدرجمہوریہ سے رابطہ قائم نہ ہوسکا۔ 22 جولائی کی صبح وزیراعظم نریندر مودی مہاراشٹرا کے چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر کو سالگرہ کی مبارکباد دے رہے تھے۔ ان کی صحت کی دعا کررہے تھے لیکن صحت کی وجہ سے استعفیٰ دینے والے نائب صدرجمہوریہ کی صحت کا بہانہ بنایا ہو، اسے لے کر دوپہر 12 بجے تک ان کا ایک ٹوئٹ نہیں آیا۔ 21 جولائی کی رات 9 بجکر 25 منٹ پر نائب صدرجمہوریہ کے ٹوئٹر ہینڈل سے جگدیپ دھنکر کے استعفے کا اعلان ہوتا ہے اور تب سے لے کر کئی گھنٹوں تک وزیراعظم مودی خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ دوپہر سوا بارہ کے قریب وزیراعظم مودی دھنکر کے استعفے پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔ ان کی صحت کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں اور بس اتنا لکھتے ہیں کہ شری جگدیپ دھنکر جی کو نائب صدرجمہوریہ کے عہدہ سے لے کر کئی کرداروں میں ملک کی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں ان کی بہتر صحت کی تمنا کرتا ہوں۔ اب آپ بتایئے ایسے کون لکھتا ہے۔ اتنا کون لکھتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تعریف تو کانگریس کے جئے رام رمیش نے کی۔ ملک کے وزیراعظم، جگدیپ دھنکر کے استعفے پر ٹوئٹ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں، انہیں الگ الگ عہدوں پر فائز رہتے ہوئے ملک کی خدمت کا موقع ملا۔ خدمت کس طرح کی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کیا دھنکر کیلئے وداعی تقریب ہوگی۔ قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ دھنکر وداعی خطاب نہیں کریں گے۔ اس وقت پارلیمنٹ کے دونوں ایوان چل رہے ہیں۔ اس کے درمیان راجیہ سبھا کے صدرنشین اور ملک کے نائب صدرجمہوریہ کا استعفیٰ ہوا۔ آپ کو یاد ہوگا جب حامد انصاری نے نائب صدر جمہوریہ کی میعاد پوری کی تب راجیہ سبھا میں وداعی تقریب منعقد ہوئی۔ وداعی تقریب میں وزیراعظم مودی کا تبصرہ بے حد متنازعہ تھا۔ وہ وداعی تقریب میں حامد انصاری کی سوچ پر تبصرہ کرنے لگ گئے۔
ممبئی بم دھماکے 2006ء : 12 افراد بری
ممبئی بم دھماکہ 2006ء کے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا گیا۔ اس طرح 12 لوگ سزائے موت اور عمر قید سے بری ہوگئے۔
تقریباً 19 سال تک بناء کسی ضمانت کے جیل میں رہنے کے بعد بری ہونے کی خوشی کیا واقعی انصاف کی جیت ہوسکتی ہے یا صرف چانس کی بات ہے کہ ان کا کیس کسی ایسے جج کی نظر سے گذر گیا جن کی نظر میں انصاف سے بڑا کچھ بھی نہیں۔ صرف چانس کی بات لگتی ہے ، ورنہ 2015ء میں جب ان 12 میں سے 5 کو پھانسی اور 7 کو عمر قید کی سزا دی گئی، وہ بھی تو عدالت تھی۔
دہشت گردی کے مقدمات میں سنوائی کیلئے الگ سے بنائی گئی خصوصی عدالت جسے مکوکا کورٹ کہتے ہیں۔ وہاں 8 سال تک مقدمہ چلا، ان تمام 12 کے نام بھی ہیں اور نام بھی بتانے ضروری ہیں کہ جب بھی انہیں گرفتار کیا گیا ہوگا تب ان ہی ناموں کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے یقین کرلیا ہوگا۔ خاص کر ان لوگوں نے جو ہر بحث میں ایک بے ایمانی کھلے عام کرتے ہیں کہ سبھی دہشت گرد مسلمان کیوں ہوتے ہیں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہر بار مسلمان ہی دہشت گردی کے الزام میں کیوں پھنسا دیا جاتا ہے۔ کبھی آپ نے کسی کو کہتے سنا کہ دہشت گردی کے کیس میں مسلمان ہی کیوں پھنسا دیئے جاتے ہیں۔ 11 جولائی 2006ء کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں 7 دھماکے ہوتے ہیں۔ 187 لوگ مارے گئے۔ 800 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ انہیں انصاف تو نہیں ملا لیکن انصاف کے نام پر کسی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ کیا اس وجہ سے کہ 12 لوگ مسلمان تھے۔ کمال احمد محمد وکیل انصاری، محمد فیصل عطا الرحمن شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان رشید، آصف خان، بشیر خان، تنویر احمد، محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد، محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم، محمد ساجد، مزمل عطا الرحمن شیخ، سہیل محمود شیخ، ضمیر احمد لطیف الرحمن شیخ۔ سب کے سب بری ہوئے ہیں۔ ممبئی ہائیکورٹ میں جسٹس انیل ایس کلور اور جسٹس شیام چندر کی بینچ نے ان کے مقدمہ کی سماعت کی۔ مکوکا کورٹ کا فیصلہ بامبے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال جولائی سے لے کر جنوری کے ختم تک عدالت میں سماعت ہوئی اور اب 5 ماہ بعد فیصلہ آیا ہے۔ بامبے ہائیکورٹ کی اس بینچ نے کیس کو کس قدر سنجیدگی سے سنا ہوگا۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 6 ماہ میں 75 مرتبہ بینچ نے سماعت کی۔ بامبے ہائیکورٹ نے مہاراشٹرا ATS کو اتنا موقع دیا اور جو فیصلہ آیا، وہی اپنے آپ میں 670 سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس معاملے میں 250 گواہوں کو سنایا گیا۔ 92 گواہ وکیل دفاع کی طرف سے پیش کئے گئے۔ مکوکا عدالت نے آخر کیا دیکھا کہ پھانسی کی سزا سنا دی اور پھانسی کی سزا بھی 2000 صفحات میں لکھی گئی۔ 9 سال تک مکوکا کورٹ نے سماعت کے بعد پھانسی کی سزا دی۔ بامبے ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ قانونی کارروائی پر کئی ایک سوال کھڑے کرتا ہے۔