امجد خان
ہر موسم کی ایک حد ہوتی ہے ایک مدت تک وہ برقرار رہتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے لیکن ارض مقدس فلسطین میں اسرائیل کا شروع کردہ تباہی و بربادی، قتل و خون اور غارت گری کا موسم ایسا لگتا ہے کہ سال کے 12 ماہ تک جاری رہتا ہے اور اس موسم کو بلا شک و شبہ نہتے فلسطینیوں کے قتل کا موسم کہا جاسکتا ہے۔ ساری دنیا بالخصوص اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں اور ادارے اگرچہ ماحولیاتی حدت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں دنیا میں گلیشیرس کے پگھلنے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور دنیا کو اس معاملہ میں راحت پہنچانے کے لئے بے شمار منصوبے بنائے جاتے ہیں، فنڈس مختص کئے جاتے ہیں اور اربوں ڈالرس خرچ بھی کئے جاتے ہیں تاہم فلسطین میں سال کے بارہ ماہ جاری رہنے والے فلسطینیوں کے قتل و غات گری سے متعلق اسرائیل کے پیدا کردہ ماحول و موسم پر عالمی برادری کوئی توجہ نہیں دیتی حالانکہ اس خونریز موسم کے خاتمہ کے لئے سب سے پہلے عالم اسلام کو حرکت میں آنا چاہئے۔ اگر عالم اسلام ہی بے حس ہو جائے تو پھر دوسروں سے کیا شکوہ شکایت ۔ عالم اسلام میں اخوت اسلامی اور اس کی اہمیت پر بہت زور دیا جاتا ہے علماء آئمہ و خطیب صاحبان اخوت اسلامی پر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70-75 سال سے اسرائیل جس انداز میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اس کی روک تھام اس کے انسداد کے لئے عالم اسلام آخر کیوں بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ بہرحال حالیہ دنوں میں اسرائیل نے جنین کو نشانہ بنایا۔ اس کے حملوں میں تاحال درجنوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ جینین کو الگ تھلگ کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے میں ناکامی کے بعد یہ توقع کی جارہی ہیکہ اسرائیلی فوج مزید مہلک اسلحہ اور طاقت کے ساتھ جینین کیمپ واپس ہوگی۔ شمال مغربی کنارہ میں واقع فلسطین پناہ گزینوں کے اس کیمپ کو چند دنوں سے اسرائیل مسلسل نشانہ بنا رہا ہے جس سے 2002 میں اسرائیل کے مغربی کنارہ پر قبضہ کی تلخ یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ اسرائیل نے جن عمارتوں کو تباہ کردیا ہے اور فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی فورسیس کا راستہ روکنے جو جلے ہوئے ٹائرس راستوں میں گراتے ہیں اس سے ہنوز دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں اور ماحول میں زہریلی ہوا پھیل رہی ہے۔ ان کی آوازوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اسرائیل کی درندگی کا شکوہ کررہے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اسرائیلی فورسس نہتے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کررہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں سے اسرائیلی فورسس کے حملوں میں تقریباً 20 فلسطینی باشندے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فورسس نے فلسطینیوں کو نہ صرف زمینی حملوں بلکہ فضائی حملوں کا بھی نشانہ بنایا ہے۔ یہ فورسس جنین کیمپ میں انہدامی کارروائی کے لئے بلڈوزروں کا استعمال بھی کررہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جنین کیمپ نصف مربع کیلو میٹر تک محیط ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کیمپ میں 23600 فلسطینی آباد ہیں۔ اگرچہ جنین میں اسرائیلی فورسیس نے اپنی درندگی کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسرائیلی فورسس اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوئی یا نہیں؟ اسرائیل جنین کیمپ کو دہشت گردوں کا اڈہ کہتا ہے جبکہ فلسطینی اسے مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ فلسطینی ارض مقدس کے تحفظ اور اپنی برادری کی مزاحمت و دفاع کے لئے ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ یہ نوجوان اسرائیلی فورسس کے خلاف کارروائیوں سے گریزنہیں کرتے۔ مغربی کنارہ میں بہبودی نوآباد کار فلسطینیوں کے لئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان یہودی نوآبادکاروں نے فلسطینی باشندوں کا جینا محال کررکھا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیلی فورسس نے جنین کیمپ کا جو محاصرہ کررکھا ہے اس سے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جنین کیمپ میں موجود مسلح مجاہدین کا تعلق الاقصی شہید بریگڈس الفتاح) سے ہے یہ فلسطینی صدر محمود عباس کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسے جنین بٹالین بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل نے جنین کیمپ پر ماضی میں کافی حملے کئے لیکن اسے ہمیشہ شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔