انجینئر محمد کمال اسمعیلؒ نے نہ صرف حرمین شریفین توسیعی پراجیکٹ کی نگرانی کی بلکہ ٹھنڈے ماربل، برقی گنبدیں اور چھتریاں نصب کا آئیڈیا بھی دیا تھا
محمد ریحان
اللہ عزو جل اپنے جس بندہ پر خصوصی رحم کرنا چاہتے ہیں، اسے نفع بخش علم عطا فرماتے ہیں۔ اپنے بندوں کی اس کے ذریعہ مدد فرماتے ہیں۔ اسے بھلائی اور نیکی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ساتھ ہی اسے وہ مقام اور مرتبہ بھی عطا کرتے ہیں جس پر دنیا رشک کرنے لگتی ہے۔ آج ہم عالم اسلام کی ایسی ہی شخصیت سے آپ کو واقف کروا رہے ہیں۔ اگرچہ وہ شخصیت اس دارِ فانی سے کوچ کرگئی لیکن تاریخ میں اپنا نام درج کرگئی اور جب جب حرمین شریفین مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے توسیعی پراجیکٹس کا ذکر آئے گا، اُس عظیم شخصیت کا ذکر ضرور ہوگا۔ ہم بات کررہے ہیں مصری انجینئر و آرکیٹیکٹ ڈاکٹر محمد کمال اسمعیلؒ کی جنہیں اللہ نے حرمین شریفین کے توسیعی پراجیکٹس کا حصہ بناکر حقیقت میں عظیم شخصیت بنادیا۔ ڈاکٹر محمد کمال اسمعیلؒ کو شاید اللہ نے اپنے گھر مسجد الحرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسیعی پراجیکٹ کی نگرانی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پیدا کیا۔ مصر کی تاریخ میں ڈاکٹر محمد کمال اسمعیلؒ کو کئی لحاظ سے پہلا مقام حاصل رہا۔ وہ مصر کی تاریخ میں ہائی اسکول سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے کم عمر طالب علم رہے۔ پہلے رائل اسکول آف انجینئرنگ میں داخلہ حاصل کرنے والے کم عمر طالب علم اور اس کالج کے کم عمر ترین گریجویٹ ہونے کا بھی انہیں اعزاز حاصل رہا۔ ڈاکٹر کمالؒ کا ایک اور اعزاز یہ رہا کہ انہیں اسلامک آرکیٹکچر میں ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں حاصل کرنے کیلئے یوروپ بھیجا گیا اور اس مقصد سے یوروپ بھیجے جانے والے وہ سب سے کم عمر مصری طالب علم رہے۔ اس کے ساتھ انہیں NILE SCARF اور IRON جیسے اعزازات عطا کئے گئے۔ ان کیلئے سب سے بڑا اعزاز یہ رہا کہ انہوں نے حرمین الشریفین کا توسیعی منصوبہ بنایا اور اس پر عمل آوری کی ، اس وقت کے خادم الحرمین شریفین شاہ فہد اور بن لادن کمپنی کے مسلسل اصرار کے باوجوداس خدمت کیلئے انہوں نے کسی بھی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر میں رقم کے عوض یہ خدمات انجام دوں تو پھر قیامت کے دن اپنے رب کو کیا صورت دکھاؤں گا‘‘۔ ڈاکٹر محمد کمالؒ کی زندگی کے بارے میں جو تفصیلات ہمیں دستیاب ہوئی ہیں، اس کے مطابق ڈاکٹر محمد کمالؒ نے 44 برس کی عمر میں شادی کی، ان کی بیوی نے ایک بیٹے کو جنم دیا اور انتقال کرگئیں جس کے بعد انہوں نے تنہا زندگی گذاری اور اپنی آخری سانس تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہے۔ ڈاکٹر کمالؒ کی خاص بات یہ رہی کہ انہوں نے برسوں حرمین شریفین میں خدمات انجام دی لیکن کبھی بھی خود کو منظر عام پر نہیں لایا۔ اپنے آپ کو دولت اور شہرت سے بہت دُور رکھا۔ میڈیا کی نظروں میں بھی نہیں آئے۔ آج آپ حرم شریف میں طواف کرنے والوں کی سہولت کیلئے بچھائے گئے فرش کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ فرش کافی ٹھنڈا ہے۔ وہاں عازمین، معتمرین کو گرمی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یونان سے منگوایا گیا خاص قسم کا ماربل ہے۔ دراصل جب حرم شریف میں عازمین حج و معتمرین کو راحت پہنچانے کیلئے ٹھنڈک برقرار رکھنے والے پتھر کا فرش بچھانے کی بات آئی تب اس پتھر کی تلاش میں ڈاکٹر کمالؒ نے یونان کا سفر کیا جہاں اس سفید ماربل کا ایک چھوٹا سا پہاڑ دستیاب تھا چنانچہ انہوں نے اپنے دورہ یونان کے موقع پر حرم شریف میں فرش بچھانے کی خاطر نصف پہاڑ کی خریدی کا معاہدہ کرلیا۔ ڈاکٹر کمالؒ معاملت طئے کرنے کے بعد مکہ مکرمہ واپس آگئے اور پھر مسجد الحرام میں اس ماربل کا فرش بچھا دیا گیا۔ اس پتھر میں گرمی یا درجہ حرارت کو جذب کرنے کی خوبی پائی جاتی ہے۔ 15 سال بعد سعودی حکومت نے ان سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرش کیلئے بھی اسی قسم کا ماربل فراہم کرنے کیلئے کہا۔ اس بارے میں خود انجینئر محمد کمالؒ کا کہنا تھا کہ جب شاہ فہد نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرش بھی اس پتھر کا بچھانے کی ہدایت دی تب وہ کافی الجھن کا شکار ہوئے اور پھر یونان کا سفر کیا اور اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سے ملاقات کرکے ماضی میں خریدے گئے سفید ماربل کی خریدی کے بارے میں دریافت کیا تب انہیں بتایا گیا کہ اس ماربل کا نصف پہاڑ ہم نے آپ کو فروخت کیا تھا اور آدھا کسی اور کو فروخت کردیا۔ ڈاکٹر کمالؒ کافی افسردہ ہوئے اور وہاں سے جاتے ہوئے انہوں نے آخری کوشش کے طور پر آفس سیکریٹری سے درخواست کی کہ وہ کم از کم اس کمپنی کا اتہ پتہ بتادے جس نے وہ پتھر خریدا ہے، آفس سیکریٹری نے یہ کہتے ہوئے انہیں اُمید دلائی کہ اگر چہ پرانا ریکارڈ ملنا مشکل ہے، پھر بھی وہ حتی المقدور اس خریدار کا ایڈریس معلوم کرنے کی کوشش کریں گی۔ اس دوران ڈاکٹر کمالؒ کو خیال آیا کہ مجھے فکرمند ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ کس نے خریدا۔ اللہ عزوجل خود ہی اس کا انتظام کردے گا چنانچہ جب وہ یونان سے سعودی عرب کیلئے روانہ ہورہے تھے تب اس کمپنی کی آفس سیکریٹری نے فون کرکے خوشخبری سنائی کہ اس کمپنی کا پتہ چل گیا ہے جس نے سفید ماربل کے پہاڑ کا دوسرا نصف خریدا تھا۔ ڈاکٹر کمالؒ خود اس بارے میں بتاتے ہیں کہ میں بوجھل قدموں کے ساتھ آفس پہنچا۔ اس دوران میرے ذہن میں یہی سوال پیدا ہورہا تھا کہ آیا 15 سال قبل خریدا گیا ماربل وہ کمپنی محفوظ رکھی ہوگی؟ لیکن جب کمپنی کا ایڈریس دیکھا تو میرے پاؤں کپکپانے لگے، ایسا لگ رہا تھا کہ دل دھڑکنا بھول گیا ہو۔ میں نے زور سے سانس لی۔ دراصل جس کمپنی نے دوسرا نصف پہاڑ خریدا تھا ، وہ سعودی کمپنی ہی تھی۔ اُسی دن سعودی عرب جانے والی پرواز میں سوار ہوا اور سعودی عرب میں آمد کے ساتھ ہی سیدھے اس کمپنی پہنچا اور دریافت کیا کہ یونان سے منگوایا گیا سفید ماربل کہاں ہے، کیا اس کا اسٹاک موجود ہے؟ جواب میں کمپنی کے ذمہ داروں نے بتایا کہ ہاں سارا اسٹاک موجود ہے۔ اس ماربل کا ایک ٹکڑا بھی ہم نے فروخت نہیں کیا تب میں ایک معصوم بچے کی طرح زاروقطار رونے لگا اور کمپنی کے مالک کو ساری داستان سناتے ہوئے اس کے آگے چیک بک رکھ دی اور کہا کہ اس میں جتنی رقم لکھنی ہو، لکھ لیجئے اور یہ سارا ماربل ہمارے حوالے کردیجئے، لیکن جب کمپنی کے مالک کو یہ پتہ چلا کہ اس کی کمپنی میں موجود ماربل مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرش کیلئے استعمال ہونے والا ہے تو اس نے فوری کہا کہ مجھے ایک ریال بھی نہیں چاہئے کیونکہ میرا خریدا ہوا پتھر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں استعمال ہورہا ہے جو میرے لئے ایک اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔واضح رہے کہ 1908ء میں پیدا ہوئے ڈاکٹر محمد کمال اسمٰعیل 2008ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اس طرح انہوں نے پورے 100 سال کی عمر پائی۔ بہرحال حرمین شریفین کے ڈیزائن انجینئر کے طور پر دنیا اُنہیں یاد رکھے گی۔