عثمان شہید ایڈوکیٹ
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جبکہ زندگی کیا ہے:
عناصر میں ظہور ترتیب
اولاد آدم کی تخلیق کے وقت خدا وند قدوس نے سوچا تھا کہ یہ میری مخلوق زمین پر میری نائب بنے گی، میری خلیفہ بنے گی، میرا ہی کام کرے گی، میرے ہی راستے پر چلے گی، لیکن افسوس! مخلوق ایسا نہ کرسکی یعنی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
عورتوں پر لازم تھا، وہ پردے میں رہتی، چہرہ اور ہاتھ کے علاوہ کوئی جز بدن عیاں نہ کریں، اُلٹا ہوا کہ مخلوق خداوند! عورتوں نے ہر جز بدن عیاں کردیا جبکہ عورتوں پر فرض تھا کہ وہ اپنے خالق کے حکم کی تعمیل کرکے اپنا حق ادا کرتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ننھی شئے پھول نے اپنے تن کی خوشبو بکھیر کر حق ادا کردیا۔ خوبصورتی میں کنول نے خوبصورتی ظاہر کرکے لہروں کو شرمندہ احسان کردیا، ننھی کلیوں نے مسکراکر سبزہ زار کا لباس زیب تن کردیا۔
ڈاکٹر نے مریض کا بعض اوقات صحیح علاج نہیں کیا جبکہ وہ نائب تھا۔ بے ایمانی آڑے آگئی، نیت خراب ہوگئی، پسند کا تخت بیچ گیا اور ایک معصوم جان پیوند ِ خاک ہوگی۔ حق ادا نہ ہوا۔ وکیل پر فرض تھا۔ وہ اپنی قابلیت کا صحیح استعمال کریں پر نہ ہوا۔ وکیل پر فرض تھا، وہ اپنی قابلیت کا صحیح استعمال کریں پر نہ ہوا۔ کسی نے ایک جاسوس کا مقدمہ لڑنے کیلئے ایک روپیہ فیس لی تو مخالف نے اسی مقدمہ میں 15 کروڑ روپئے فیس لی اور ہار گیا اور یوں اپنی نااہلیت کا ثبوت دے دیا۔ پیسہ لیا، اچھا کیا لیکن اس کا حق ادا نہ کیا۔
گلاب نے تمازت سے گھبرا کر لبادہ بدن اُتار دیا۔ ایک خوشبو ایسی بکھیری کے سارا چمن معطر ہوگیا۔ ہر کلی ہر پھول مست ہوکر جھومنے لگی۔ یوں اپنے وجود کا حق ادا کردیا۔ بادل نے گرج کر بجلی نے چمک کر اشجار نے سر بہ سجود ہوکر شاعر نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرکے حق ادا کردیا اور ہم بے حس، بے ضمیر، بے ہمت ہوکر رہیں گے اور حق ادا نہ ہوا۔ دو ہاتھ، دو پاؤں، دو کان، عقل و سمجھ، فہم و اِدراک رکھتے ہوئے بھی ہم جانور سے بدتر بنے بیٹھے ہیں۔ ابرہہ کی عظیم فوج اور ہاتھی پر اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے منہ میں کنکریاں بھیج کر تباہ و تاراج کردیا اور ثابت کردیا کہ ہر طاقت، ہر زور، ہر سازش کا جو اب اللہ کے پاس موجود ہے اور ان تمام مکروہ چالوں کا جواب بھی موجود ہے۔ کبھی کچھ کے شکل میں کبھی چیونٹی کی شکل میں کبھی چوڑیوں کی شکل میں جیسے ابراہیم علیہ السلام جب نذرآتش کئے گئے تو ایک چڑیا نے اپنی چھوٹی سی چونچ میں پانی بھر بھر کر اس کالی آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔ اپنے جتہہ برابر اور مقدور بھر کوشش کرتی رہی۔ بالآخر جل کر خاک ہوگئی اور حق ادا کردیا گیا۔ ہم ایک ننھی سی چڑھایا کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اگر تم100 ہو تو 200 کی ہمت رکھتے ہو اور 200 ہو تو 400 کی ہمت کا مظاہرہ کرسکتے ہو۔ شرط یہ ہے کہ تم قائم رہو۔ سورۂ انفال میں اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر تم استقامت کا مظاہرہ کرو تو میں تمہاری مدد کروں گا‘‘۔
ہم نے 1000 بار پڑھا ہے لیکن بعض افراد نے ہی اس پر عمل کیا، کیا ہم کو اللہ پر اعتماد نہیں۔ نغوذ باللہ
تاریخ شاہد ہے کہ سات ہزار مسلمانوں نے شہنشاہ راڈرک کی فوج کو دھول چٹا دی، 5000 مسلمانوں نے رومن فوج کو مار مار کر بھگا دیا۔ ایک اور عبدالرزاق اسی طرح اپنے محاذ پر ڈٹ جانا تو مغلیہ فوج ناکام ہوجاتی۔ اگر چاند سلطانہ کی طرح کوئی اور استقامت سے کام لیتا تو عادل شاہی حکومت کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا۔ تاریخ اپنے سینے پر لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کو دہرا رہی ہے جبکہ مسلمانوں کے حوصلے کا ہمت، شجاعت، بہادری اور مردانگی کا امتحان لے سکے۔ جبکہ نہ خدا بدلا ہے، نہ اس کی سنت جبکہ مسلمان جنگ و روباب میں ، رقص و سرور میں شراب کباب میں آج تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لئے دشمن تلواریں تیز کررہا ہے۔ نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے۔ اس دنیا میں جینا ہے اور شاندار موت مرنا ہے اور تاریخ لکھنا چاہتے ہو تو پھر حق ادا کرنا ہوگا۔ نوجوان نسل کو تاریخ سے واقف کروانا ہوگا اور شجاعت حسینؓ سکھانی ہوگی۔ حضرت علی اکبرؓ کا ایثار کا سبق پڑھنا ہوگا اور حضرت علی اصغرؓ کا واقعہ دہرانا ہوگا۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ شیر خدا حضرت علی ؓنے قلعہ خیبر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور دربارِ نبویؐ سے دادِ شجاعت حاصل کی اور حضرت خالدؓ نے اپنی شجاعت و بہادری کی بناء پر ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب حاصل کیا تھا اور 80 زخم کھاکر حق ادا کردیا۔ ائے مسلمان کیا تو نے طلوع سحر کا منظر دیکھا ہے جس کو دیکھنے کے بعد جوشؔ نے کہا تھا:
ہم ایسے اہل نظر کے لئے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
کیا تم نے دیکھا ،اگر دیکھتے تو حق ادا ہوجاتا اور اللہ کی قدرت کے قائل ہوجاتے اور یوں طوفان بن کر اُٹھتے کہ سیلابوں کو کاٹ کر رکھ دیتے۔
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں ترے دور کا آغاز ہے
ہم نے سوائے چند کے علم کا حق ادا نہ کیا جبکہ اس میدان میں لڑکیاں آگے ہیں اور نئی تاریخ لکھ رہی ہیں جیسے اسلحہ کے مرکز۔ امریکہ کے پینٹگان میں جو افواج جمع ہیں ، اس کا 48% حصہ مسلم لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ اگر یہ اپنا حق ادا کرتے ہوئے رضیہ سلطان بن جائیں تو پھر چاند بدل کر سورج ہوسکتا ہے۔ صدر امریکہ کے ڈاکٹروں میں 13 مسلمان ڈاکٹرس شامل ہیں۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جب تک مسلمان غالب نہ آجائیں، قیامت نہیں آسکتی۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ عمل سیکھیں، حوصلہ رکھیں، بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کریں جیسے ٹیپو سلطانؒ نے کیا تھا۔ ایسا بہادر شخص کہ مرنے کے بعد بھی انگریز جنرل نعش کے قریب آنے سے گھبراتا رہا۔ ٹیپو سلطان ؒ نے ہمت کی، ایک نئی تاریخ رقم کی جو آج تک ہم کو منزل کا پتہ بتا رہی ہے کہ دیکھو! ایک فرد جم جائے اور اِستقامت سے کام لے تو حق کا قافلہ بن سکتا ہے۔ اس اُمید سے :
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
کہ پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
حوصلہ تو رکھو، ہمت کا مظاہرہ کرو، اللہ کی ذات پر اعتماد رکھو، کامیابی تمہارے قدم چومے گی اور یوں شعر :
دُعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانہ میں
شاہین زادوں کے قلعے آہستہ آہستہ ویرانگی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں اور ہماری مردانگی کو آواز دے رہے ہیں۔ پھول تو کانٹوں میں کھلتے ہیں۔ طوفان، سیلابوں میں چلتے ہیں۔ کلیاں دھوپ میں مسکراتی ہیں۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا ائے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کیلئے