محمد نصیرالدین
ہر سال دنیا میں ’’یوم خواتین‘‘ بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ خواتین کے حقوق ، ان کی عزت و ناموس ، مساوات مرد و زن اور خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازات کو لے کر مختلف باتیں کی جاتی ہیں اور پھر چند ناواقف اور جدید جاہلیت کے علمبردار اسلام اور مسلمانوں پر طنز کرنے لگتے ہیں کہ خواتین کے حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں، خواتین کو گھروں میں بند کردیا گیا ہے ۔ ’’آزادیٔ نسواں‘‘ اور ’’حقوق نسواں‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں تاہم ان سب کے پیچھے یہ خواہش پوشیدہ ہوتی ہے کہ عورت اور مرد میں کسی قسم کی کوئی تفریق باقی نہ رہے ، عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ زندگی کے تمام امور و معاملات میں حصہ لے، عورتوں پر کسی قسم کی پابندی نہ رہے ۔ عورتیں اپنی مرضی کی مالک اور خود مختار ہوجائیں۔ ان کی خواہش تمنا اور پسند کے بیچ کوئی چیز حائل نہ ہو۔ کوئی اصول کوئی ضابطہ ، قانون اور بندش ان کی راہوں میں رکاوٹ نہ بنے ۔ خواتین کے سلسلہ میں یہ مطالبہ اکثر خواتین سے زیادہ مردوں کی طرف سے کیا جاتا ہے کیونکہ اس مطالبہ کی پشت پر ان کی یہ پوشیدہ خواہش ہوتی ہے کہ عورتوں کو محفلوں اور پا رٹیوں کی زینت بنایا جائے ۔ عورتوں کو سامان تفریح بنایا جائے ۔ چنانچہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا ، عورتوں کو با اختیار بنانے کے سپنے دکھائے گئے ، تمام شعبۂ حیات میں حصہ داری کی باتیں کہی گئی ۔ پھر کیا تھا عورتوں کی ترقی اور عروج کی وہ تصویر سامنے آئی کہ شیطان بھی اس سے شرمسار ہوگیا۔ عور توں پر ظلم و ستم کی نت نئی داستانیں رقم ہونے لگیں۔ عورتوں کی عصمت و عفت کی قیمتیں طئے ہونے لگیں ۔ عورتوں کو عزت و شہرت دینے کا لالچ دے کر ان کی عزت و ناموس کو تار تار کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خودکشی میں عورتوں کو عافیت نظر آئی ۔ کبھی جہیز ، کبھی شوہر کبھی باس تو کبھی بے وفا ساتھی خودکشی کی وجہ بننے لگے ۔ باوجود ان سب کے تعلیم ، پردہ ، ملازمت، نکاح اور طلاق کو لے کر مسلمان عورت کو پسماندہ قرار دیا گیا۔ جب علم و فہم کو گہن لگ جاتا ہے تو ایسی ہی باتیں کی جاتی ہیں۔ اسلام میں عورت کو اتنی ہی اہمیت دی گئی ہے جتنی کہ مرد کو حاصل ہے ۔ خالق کائنات نے دو مختلف جنس کی تخلیق کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ اس سے نسل انسانی کی بقا ہواور نسل انسانی کی پیدائش اور پرورش پر درخت، تربیت و خاندان کی تشکیل اور تعمیر میں مرد و عورت کا برابر کا حصہ ہوتا ہے ۔ ہر دوپہر ان کی اپنی طاقت قوت اور جسمانی ساخت کی مناسبت سے علحدہ علحدہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ۔
عورتوں پر اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا کہ اسلام نے انہیں جینے کا حق دیا !! دور جاہلیت میں لوگ ذلت سے بچنے کے لئے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اور آج کا ترقی یافتہ معاشرہ لڑ کیوں کو پیدائش سے قبل ہی ہلاک کرنے لگا ہے ۔ اتنا ہی نہیں لڑکیوں کی پرورش کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی، جس کو لڑکی تولد ہو اور وہ اس کو زندہ رہنے دیا اور نہ بے توقیری کی اور نہ اس پر لڑکوں کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے ۔ اسی طرح عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا رسول اکرمؐ نے ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو بیویوں کے لئے سب سے بہتر ہے‘‘ ۔ بچوں سے کہا گیا کہ ’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘ ۔ خبردار جنت چاہتے ہو تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اُف تک نہ کہو۔ بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’بیوہ اور غریب کے لئے دوڑ و دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ کے مجاہد کی طرح ہے اور ان کے برابر ہے جو دن بھر روزہ رکھتے ہوں اور رات بھر عبادت کرتے ہوں۔ ایک طرف اسلام میں عورتوں کی یہ اہمیت ہے۔ دوسری طرف موجودہ ترقی یافتہ سماج ہے جو آزادی کے نام پر لڑکیوں کی پیدائش پر قدغن لگاتا ہے ، ماں باپ اور بوڑھوں کو ’’اولڈ ایج ہومس‘‘ میںداخل کرتا ہے اور بیواؤں کو حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔
عورت اور مرد خاندان کے دو ا ہم ستون ہیں۔ نسل انسانی کی پرورش اور ایک اچھے صحت مند اور خوشحال خاندان کو پروان چڑھانے کی دونوں پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔ بیوی بچوں اور دیگر اہل خانہ کی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری اسلام مرد پر عائد کرتا ہے اور عورت کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتا ہے ۔ مالی ذمہ داریوں کا بوجھ کتنا کٹھن ہے ، اس سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اسلام نے عورت کو اس بوجھ سے دور رکھا ہے چونکہ عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور واقع ہوئی ہے اور فطری طور پر وہ اس سرگرمی سے شانہ بہ شانہ سخت محنت نہیں کرسکتی جیسا کہ مرد کرسکتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو ’’قوام‘‘ قرار دیا ہے اور عورتوںکی تمام مالی ضروریات کا مرد کو کفیل بنایا ہے اور اس فکر سے خالی کردیا ہے کہ اس کی روٹی روزی و دیگر ضروریات کی تکمیل کیسے ہوگی ! عورت جب بیٹی ہوتی ہے تو باپ پر کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ بہن ہو تو بھائی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ بیوی ہو تو شوہر ذمہ دار ہوتا ہے اور ماں بن جائے تو بچوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اسی طرح اگر کوئی عورت بے سہارا ہوجائے تو سماج اور حکومت کو اس کا کفیل بنایا گیا ہے ۔ برخلاف اس کے جدید جاہلیت کے علمبردار اور حقوق نسواں کے نام نہاد چمپین عورتوں پر ظلم و ستم پر فخر کرنے لگے ہیں۔ ایک طرف عورت پر گھریلو ذمہ داریوں کا عظیم بوجھ ڈالا جاتا ہے تو دوسری طرف تلاش معاش کی ذمہ داری بھی ڈالی جاتی ہے ۔ یہ خیال غلط ہے کہ اسلام نے عورتوں کو چاردیواری تک محدود کردیا ہے ! اسلام واضح انداز میں شرعی تقا ضوں کو پورا کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے حیات میں عورتوں کو حصہ لے نے کی اجازت دیتا ہے ۔ عورت اپنے گھر یا خاندان کی معاشی بدحالی دور کرنے کیلئے معاشی دوڑ میں حصہ لے سکتی ہے ، شوہر انتقال کرجائے یا معذور ہوجائے تو بچوںکی پرورش کے لئے حصول معاش کی خاطر کوشش کرسکتی ہے ۔ اگر معاشی طور پر خود مکتفی ہے تو اپنے فاضل وقت صلاحیت اور ذہانت کو معاشرہ کی تعمیر اور ترقی اور فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا سکتی ہے لیکن اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ حصول معاش کی خاطر کوئی عورت حدود شریعت کو پامال کردے اور تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھ کر بے پردہ ، مخلوط ماحول اور اظہار زیب و زینت کے ساتھ معاشی دوڑ میں لگ جائے ۔ آج طب اور تعلیم دو ایسے شعبہ ہائے حیات ہیں جن میں خواتین کی شرکت لازمی ہوچکی ہے و نیز بعض ایسے شعبہ جات ہیں جہاں حدود و قیود کے ساتھ معاشی جدوجہد میں حصہ لیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح کے مواقعوں سے استفادہ سے اسلام نے منع نہیں کیا ہے ۔ تا ہم شرط یہ ہے کہ گھریلو و خاندانی ذمہ داریوں سے فرار مقصد نہ ہو اور نہ ہی شوہر کی ناراضگی کے ساتھ اس سہولت سے استفادہ کیا جائے ۔
عورت فطری طور پر بچوں کی پیدائش اور پرورش کا بھاری بوجھ چاہے نہ چاہے اس انداز میں اٹھاتی ہے کہ اس کے لئے اسے کافی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کو اسلام نے کئی ایک مراعات سے بھی نوازا ہے ۔ ایک تو مالی ضروریات کی تکمیل سے آزاد کردیا ، دینی فرائض کی تکمیل بھی مخصوص مواقع پر ساقط کردی۔ شادی کے موقع پر مہر کا حق اسے دیا ، شادی سے قبل جو مال و اسباب کی مالک تھی بعد میں بھی وہی مالک ہوگی ، بیٹی یا دلہن کی شکل میں ماں باپ کا جو حصہ یا ترکہ اسے ملے گا وہ اس کی تنہا مالک ہوگی۔ جہاد اسلام میں افضل ترین عبادت ہے لیکن عورت کو اس سے بری الذمہ قرار دیا گیا ۔ بھلا کوئی نام نہاد حقوق نسواں کا علمبردار اس طرح کی مراعات جدید معاشرہ میں بتا سکتا ہے جو کہ اسلام نے عورتوں کو دی ہیں ۔ بعض فطری وجوہات کی بناء عورتوں کو اولاد کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ قدرت کا قانون ہے ، اس کا مطلب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عورتوں کا مقام کم ہوگیا یا ان کا درجہ کم کردیا گیا ہے ۔ خالق کائنات نے انسان کو آنکھ کان اور ہاتھ پیر جیسی نعمتوں سے نوازا ہے اور ان اعضاء کے فرائض الگ الگ رکھے ہیں، اب اگر کوئی شخص یہ تعین کرنے لگے کہ کان زیادہ اہم ہے یا آنکھ یا وہ اس بات کی کھوج اور تحقیق میں لگ جائے کہ آنکھ اور کان میں کون افضل یا برتر ہے اور کون ارزل یا کمتر ہے تو ظاہر ہے اس سے زیادہ احمق اور نادان کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔
وہ لوگ جو عورتوں کو اپنی خواہشات اور تمناؤں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل بلا روک ٹوک انجام دینا چاہتے ہیں، اس امر کے متمنی ہیں کہ عورت ان کی آنکھوں کی زینت بن جائے، عورتوں کی محفلیں وہ سجاتے رہیں اور عورتوں کے حقوق کی آڑ میں اپنی من مانی کرتے رہیں ، انہیں اسلام کے حدود و قیود پر اعتراض ہے ۔ عورتوں کے احترام اور عظمت پر انہیں قلق ہے اور عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کی تکمیل پر انہیں عدم اطمینان ہے ، انہیں اتنی جرات اظہار نہیں ہے کہ وہ اپنے دل کے سپنوں کو بیان کرسکیں، ایسے نام نہاد دانشوروں کو چاہئے کہ عورتوں کے حقوق و فرائض اور حدود قیود سے متعلق اسلامی تعلیمات کا بے لاگ مطالعہ کریں اور ان تعلیمات کے پیچھے کے اغراض و مقاصد کو جاننے کی کوشش کریں تاکہ حقیقتاً وہ حقوق نسواں کے علمبردار بن سکیں ۔ ’’یوم خواتین‘‘ کے موقع پر اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقوق نسواں کی اسلامی تعلیمات کو برادران وطن اور حقوق نسواں کے علمبرداروں تک پہنچائیں تاکہ خالق کائنات کے بنائے ہوئے اصول اور اس کے فوائد سے تمام ناقد بھی واقف ہوسکیں اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو
آہ ! ائے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو