دوحہ ۔ 9 ستمبر (ایجنسیز) ایک با خبر ذریعہ کے مطابق قطر کے وزیراعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے دوحہ میں پیر کے روز ہونے والی ملاقاتوں میں حماس کی قیادت پر زور دیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے سامنے آنے والی تازہ ترین امریکی تجویز کو قبول کرے۔ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ قطری وزیراعظم نے حماس پر یہ واضح کیا کہ امریکی تجویز جو ثالثوں کے ذریعے پہنچائی گئی ہے، اس کا مقصد فوری جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی ہے۔اس سے ایک روز قبل حماس نے اعلان کیا تھا کہ اسے امریکہ کی طرف سے کچھ تجاویز موصول ہوئی ہیں جن پر وہ ثالثوں کے ساتھ مل کر غور کر رہی ہے۔دوسری جانب حماس کے رہنما باسم نعیم نے پیر کو کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے سامنے آنے والا منصوبہ محض ابتدائی خیالات ہیں، کوئی با ضابطہ تجویز نہیں۔ ان کے مطابق اس منصوبے کا مقصد دراصل معاہدہ کرانا نہیں بلکہ ایسا ماحول بنانا ہے کہ حماس اسے مسترد کر دے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تجاویز حماس کے ہتھیار چھڑوانے کی بات کرتی ہیں، لیکن غزہ کی تعمیر نو کا ذکر تک نہیں۔ البتہ حماس اور دیگر فلسطینی جماعتیں ایسے سیاسی حل کی خواہش مند ہیں جو جنگ کا خاتمہ کرے اور ان کے جائز مقاصد کو پورا کرے۔صدر ٹرمپ نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ نے حماس کو “آخری انتباہ” جاری کیا ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے، ورنہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ انھوں نے اسے آخری موقع قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل پہلے ہی شرائط مان چکا ہے، اب فیصلہ حماس کو کرنا ہے۔
غزہ سے متعلق ٹرمپ کی تجویز قطعی نوعیت کی نہیں : حماس
بیروت ۔ 9 ستمبر (ایجنسیز) حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے پیش کی جانے والی تجویز دراصل ابتدائی خیالات ہیں، کوئی باضابطہ پیشکش نہیں۔ان کے مطابق امریکی تجویز کا مقصد جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنا نہیں، بلکہ اس تجویز کو مسترد کروانا ہے۔باسم نعیم نے مزید کہا کہ ان خیالات میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی بات تو کی گئی ہے لیکن غزہ کی تعمیر نو کا ذکر تک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہ ایسے معاہدے کے خواہاں ہیں جو جنگ ختم کرے اور ایک سیاسی حل کی راہ ہموار کرے جو ان کے جائز اہداف کو پورا کرے۔اتوار کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ نے حماس کو یہ پیشکش قبول کرنے کے لیے آخری انتباہ دیا ہے، اور خبردار کیا کہ انکار کی صورت میں “سنگین نتائج” برآمد ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس پر راضی ہو چکا ہے اور اب فیصلہ حماس کو کرنا ہے۔ذرائع کے مطابق العربیہ اور الحدث کو موصول ہونے والے جنگ بندی کی تجویز پرمبنی مسودے میں کہا گیا ہے کہ تجویز کے تحت تمام قیدیوں کو چاہے وہ زندہ ہیں یا مارے جا چکے ہیں کو معاہدہ طے پانے کے 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے گا۔اسی طرح فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد، جن میں عمر قید کے اسیر اور غزہ سے گرفتار افراد شامل ہیں، کو بھی 48 گھنٹوں کے اندر رہا کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔