حکومت کی پالیسیاں امتیازی سلوک سے پاک ہوں

   

کپل سبل
جب قدرت اپنا قہر نازل کرتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن اس کے قہر میں مساوات کا مکمل تصور پایا جاتا ہے اور اس تصور کا پورا پورا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔ انسانوں سے نمٹنے میں قدرت بالکل شفاف ہوتی ہے۔ امیر، غریب، اعلیٰ ادنیٰ سب کو مساوی طور پر نشانہ بناتی ہے۔
اس کے برعکس آپ دیکھیں گے کہ اکثر بحرانوں میں غریب اور محروم طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن قدرت۔ قدرت ہوتی ہے جو امتیاز نہیں برتتی جیسا کہ ہم انسان ادنی اعلیٰ اور امیر غریب میں تمیز کرتے ہیں۔ 26 دسمبر 2004 کو 7:58 بجے سونامی آتی ہے۔ آکسفام کے ایک سروے میں پایا گیا کہ سونامی کی ان لہروں سے غریب طبقات بہت زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ امیروں کے مضبوط گھر ان لہروں کے مقابل ٹھہرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے تھے۔

سب سے کمزور وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی زمین نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کو سونامی میں زبردست نقصان ہوا۔ غریب ہر چیز سے محروم ہوگئے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ غریبوں کو مالکین اراضیات، کاروباری لوگوں اور اثر و رسوح رکھنے والے عناصر سے بہت زیادہ تکلیف پہنچی کیونکہ سونامی کے بعد تعمیر جدید اور بازآبادکاری کی کوششوں میں مذکورہ لوگوں پر توجہ مرکوز کی گئی، غریبوں کو نظرانداز کردیا گیا۔
جہاں تک کورونا وائرس کا سوال ہے اس نے ساری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہمیں ابھی ہندوستان میں اس کے اثرات کی شدت دیکھنا ہے۔ ویسے بھی کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں اچھائی کی امید تو ضرور رکھنی چاہئے لیکن ساتھ ہی بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں اسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسیس کو ایسے افراد پر خصوصی توجہ دینے میں مشکلات پیش آئیں گی جو کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ ویسے بھی ہمارے اسپتالوں میں جو طبی آلات ہیں اور علیحدہ مخصوص وارڈس میں جو بستر ہیں وہ ناکافی اور محدود ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا وائرس کے بڑھتے متاثرین کو قرنطینہ میں رکھنے اور ان کے علاج و معالجہ کے لئے فوری طور پر اسپورٹس اسٹیڈیم اور دیگر عوامی مقامات کو طبی سہولتوں میں تبدیل کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق اب قومی سطح پر کورونا وائرس پھیلنے کے معاملہ میں ہندوستان مرحلہ تین میں پہنچ گیا ہے۔
تقریباً 80 فیصد متاثرین کو کم شدت کا بخار ہوگا اور یہ ختم بھی ہو جائے گا۔ تقریباً 20 فیصد کو فوری طور پر طبی نگہداشت کی ضرورت پڑے گی ان میں سے زائد از 5 فیصد کے لئے مصنوعی آلات تنفس درکار ہوں گے تاکہ انہیں تنفس کا جو عارضہ لاحق ہوگیا ہے اس میں افاقہ ہو لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کافی وینٹی لیٹرس بھی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ جیسے ملک میں 50 متاثرین میں سے صرف ایک کو ہی وینٹی لیٹر فراہم کیا جاسکتا ہے اور مابقی 49 کو واپس کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی صورتحال میں قسمت ہی آپ کی بقاء کو یقینی بناسکتی ہے۔
یہ وائرس ان لوگوں کے لئے بہت ہی مہلک ہے جو پہلے سے ہی دوسری بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ اور ناقص غذا کا شکار ایسے لوگ جن کی قوت مدافعت انتہائی کم ہو انہیں اس وائرس سے متاثر ہونے کا جوکھم یا خطرہ زیادہ لاحق ہے۔ ان میں سے بیشمار ایسے ہیں ہوسکتا ہے کہ جنہیں طبی سہولتوں تک رسائی حاصل نہ ہو۔ خاص طور پر دیہی ہندوستان میں جہاں ہمارا پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم اس قدر ناقص ہے کہ عام قسم کی نگہداشت صحت سے متعلق ضروریات سے نمٹ نہیں پاتا۔ اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیہی ہندستان میں جو لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوں گے انہیں شہری مراکز کے اسپتالوں تک رسائی کی گنجائش محدود ہوگی۔ حکومت نے لاک ڈاون کا جو اعلان کیا ہے وہ ضروری ہے۔ شہریوں کا کورونا وائرس کے پھیلنے سے روکنے کے لئے اپنے گھروں میں رہنا ضروری ہے۔ بعض لوگوں کا ایقان ہے کہ لاک ڈاون کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو نہیں پائے گا صرف اس وائرس کے ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں پھیلنے میں تاخیر کرے گا۔ ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں گندہ بستیاں ہیں جہاں لوگ چھوٹے چھوٹے جھگی جھونپڑیوں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے ہیں۔ لاک ڈاون کے منفی اثرات بھی ہیں۔ پہلے تو ہمارے شہروں میں آبادی حد سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ کمروں میں بے شمار ورکرس قیام کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ممبئی کی مثال دے سکتے ہیں جہاں شفٹوں میں کام کرنے والوں کے لئے بستر بھی کرائے پر دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں پر لاک ڈاون نافذ کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی حالت تو لاک ڈاون میں بہت خراب ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مزدور اپنے گاؤں اور دیہاتوں کو واپس ہوتے ہوئے راستے میں ہی پھنس گئے ہیں۔ وہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہیں لاک ڈاون تک جہاں ہیں وہیں پر رہنا ہوگا۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں بنا کسی شلٹر کی فراہمی کے رکھا گیا ہے اور انتظامیہ کے لئے یہ پریشانی کی بات ہے۔ جن ریاستوں سے نقل مکانی کرنے والے مزدور گذر رہے ہیں یا گذرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس طرح کی صورتحال کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان مزدوروں میں ہوسکتا ہے کہ کچھ کورونا سے متاثر بھی ہوں اور ان کے ذریعہ یہ وائرس دوسروں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ جہاں تک ریاستی حکومتوں کے اقدامات کا سوال ہے انہیں بے روزگاری کے بارے میں فکر مند ہونا ضروری ہے۔ خاص طور پر آٹو موبائیل، ریسٹورنٹس اور ہوٹلس کے شعبوں میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ ایسے شعبے ہیں جو ہندوستان کے 60 فیصد گھرانوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ لاک ڈاون کے اقتصادی اثرات و نتائج بہت بھیانک ہیں۔ ذرا سوچئے کہ جب چھوٹے تجارتی ادارے بند ہو جائیں اور کاروبار ٹھپ ہو جائیں تو پھر افرادی قوت کا کیا حال ہوگا۔

سب سے زیادہ متاثر غیر منظم، غیر رسمی شعبے اور زرعی لیبر ہوں گے۔ اس طرح کی صورتحال میں ریاست کو سماجی دوریاں یا فاصلے کا اصول نافذ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ ان لوگوں کو خطرہ لاحق ہے جو غریب ہیں اور ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں گنجان آبادی پائی جاتی ہے اور حفظان صحت کے معقول انتظامات نہیں ہیں۔ جہاں تک تجارت یا کاروبار کا سوال ہے ہول سیلرس، ریٹیلرس، چھوٹی دکانوں کے مالکین اور ایم ایس ایم ای شعبے سے وابستہ لوگ خود کو معاشی طور پر تباہ و برباد پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آمدنی بالکل رک گئی ہے، اُدھار طلب کرنے والا بھی کوئی نہیں اور جنہوں نے ادھار یا کریڈٹ پر سامان حاصل کیا ہے ان سے اس رقم کی وصولی بہت مشکل ہو جائے گی۔ حکومت نے بڑی دیر کرتے ہوئے 1.7 لاکھ کروڑ روپے کا پردھان منتری غریب کلیان پیاکیج کا اعلان کیا۔ پردھان منتری کسان سمان ندھی کے تحت حکومت 8.7 کروڑ کسانوں کے اکاؤنٹس میں فی کسان 2000 روپے جمع کرائے گی۔ حکومت نے غریبوں کو 5 کیلو چاول یا گیہوں اور ایک کیلو دالیں مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح اُجولا یوجنا کے تحت آئندہ تین ماہ کے لئے ایل پی جی سلینڈرس مفت دیئے جائیں گے۔ دوسری طرف آئندہ تین ماہ کے لئے جن دھن اکاؤنٹس رکھنے والی 20 کروڑ خواتین کو فی ماہ 500 روپے دیئے جائیں گے۔

دوسری جانب امریکہ نے جس کی آبادی 330 ملین یعنی 33 کروڑ ہے 2.2 کھرب ڈالرس کے مالیاتی پیاکیج کا اعلان کیا ہے جبکہ برطانیہ نے کورونا وائرس کی تباہی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے 33 ارب ڈالرس کے پیاکیج کا اعلان کردیا ہے۔اس کے برعکس ہماری آبادی 1.3 ارب ہے جس میں سے تقریباً 800 ملین ایسے لوگ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپے سے کم ہے۔ ان حالات میں وزیر فینانس کو اس بات کی ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ بہت بڑے اقتصادی پیاکیج کا اعلان کریں۔ حکومت نے خواتین اور دیگر طبقات کے لئے جن رقمی امداد کا اعلان کیا ہے اس سے غریبوں کو کوئی مدد ملنے والی نہیں کیونکہ یہ بہت کم رقم ہے اور غریب ہندوستان میں جس چیالنج کا سامنا کررہے ہیں وہ بہت بڑا ہے۔ حکومت کے پیاکیج میں بے روزگاروں کے لئے کوئی پیاکیج نہیں۔ اسی طرح زرعی لیبر کے لئے بھی کچھ بھی نہیں۔ وزیر فینانس نے چھوٹے کاروبار کے بارے میں بھی کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا حالانکہ یہ چھوٹے کاروبار ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ عالمی اور قومی سطح دونوں پر ہم نے متحدہ طور پر ردعمل کا اظہار کیا اور یہ تبھی ممکن ہوا کیونکہ اس عالمی وباء نے ہم سب کو متاثر کیا۔ جب ہم متحدہ مقصد کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو تب ہی متحدہ ردعمل ممکن ہوتا ہے۔ عدم مساوات، فرق اور بھید بھاو ہم نے ہی پیدا کیا ہے قدرت نے نہیں، اس میں ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ جو لوگ ہم پر حکمرانی کررہے ہیں ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ ان کی پالیسیاں بھی فطرت کی طرح شہریوں کے درمیان امتیاز سے مبرا ہوں۔ ہمیں فطرت کی آواز سننی چاہئے اور اس کے انداز کو سمجھنا چاہئے۔