این راہل
حیدرآباد اور اُس کے اطراف و اکناف میں واقع جھیلوں ، تالابوں ، کنٹوں اور دیگر آبی ذخائر کے پیٹ کو مٹی سے بھرکر اُس پر بلند و بالا پختہ عمارتیں تعمیر کرنے والوں باالفاظ دیگر وہاں آر سی سی کے جنگلات کھڑے کرنے والوں کی اب خیر نہیں کیونکہ ان کے خلاف حیڈرا ، حیدرآباد ڈیزاسٹر ریسپانس اینڈ ایسیٹ پروٹیکشن ایجنسی (HYDRAA) نے ایک محاذ کھولدیا ہے ۔ اس نے اُن آبی ذخائر پر تعمیر کردہ غیرمجاز و غیرقانونی عمارتوں کو زمین دوز کرنا شروع کردیا ہے۔ اب تک حیڈرا نے ایسی 52 غیرمجاز عمارتوں کو منہدم کردیا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اب تک 152 غیرمجاز عمارتوں کو منہدم کیا گیا ۔ حیڈرا صرف جھیلوں یا تالابوں پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو ہی نشانہ نہیں بنارہی بلکہ کھلی سرکاری اراضیات ، پارکس ، پلے گراؤنڈس ، ڈرینس ، سڑکوں ، کیاریج ویز اور فٹ پاتھس کو بھی ناجائز عمارتوں سے پاک کرنے میں مصروف ہے ۔ اس سلسلہ کی ایک تازہ کڑی کے طورپر حیدرآباد کے مضافاتی علاقہ خانہ پور میں ایک مخدوش جھیل پر تعمیر کی جارہی تین منزلہ کمرشیل کامپلکس کو منہدم کردیا ۔ وہ عمارت تاش کے پتوں کی طرح ڈھیر ہوگئی ۔ آپ کو بتادیں کہ حیڈرا کا حکومت نے حال ہی میں قیام عمل میں لایا تاکہ جھیلوں وغیرہ پر تعمیر کئے گئے غیرمجاز قبضوں کو برخواست کیا جائے ۔ یہ کارروائیاں ہفتہ اور اتوار کو ہی کی جارہی ہیں تاکہ کوئی بھی عدالت سے رجوع ہوکر حکم التواء حاصل نہ کرسکے ۔
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ حیڈرا نے ان غیرمجاز تعمیرات کو منہدم کرنے کیلئے نہ صرف دوسرے سرکاری محکمہ جات بلکہ خانگی ورکروں ( مزدوروں ) کی خدمات بھی حاصل کررہا ہے ۔ اس مہم کی خاص بات یہ ہے کہ حیڈرا کے سربراہ کثیرتعداد میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لارہے ہیں ۔ ہم جس خانہ پور کی بات کررہے ہیں وہاں Excavators کے ذریعہ غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کردیا گیا۔ ا سطرح خانہ پور کے ساتھ ساتھ گنڈی پیٹ اور شنکرپلی میں صرف ایک دن میں یہ عمارتیں منہدم کردی گئیں کیونکہ وہ جھیلوں کے بفر زون یا فل ٹینک لیول (ایف ٹی ایل ) پر تعمیر کی گئیں تھیں۔ حیڈرا کی اس مہم میں ایک بات مشترک رہی جہاں کہیں انہدامی کارروائی کی گئی وہاں پر حیڈرا کی ٹیم کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ عمارتوں کے مالکین کا یہی دعویٰ رہا کہ ان کے پاس خود حکومت کے تمام اجازت نامے موجود ہیں۔ مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لیکر قریبی پولیس اسٹیشنوں کو منتقل کیا جارہا ہے جس کے بعد حیڈرا کا عملہ بناء کسی رکاوٹ کے اپنا کام پایہ تکمیل کو پہنچارہا ہے ۔ یہ انہدامی کارروائیاں چار تا 5 گھنٹوں میںمکمل ہورہی ہیں ۔
آپ کو حیڈرا کے بارے میں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کا قیام بطور خاص تلنگانہ کے شہری علاقہ میں کام کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا ہے جو حیدرآباد اور اوٹر رنگ روڈ (ORR) تک پھیلے ہوئے علاقوں پر مشتمل ہے جو اس شہر کی Natural Boundry فطری سرحد بن گئی ہے۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ حکومت نے 19 جولائی کو ایک ایکزیکٹیو آرڈر جاری کرتے ہوئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور تمام شہری اور دیہی اداروں ( ORR تک چار اضلاع ) کیلئے واحد یونیفائیڈ ایجنسی قائم کی ۔ اس ایجنسی کا سربراہ یا کمشنر ایک سینئر آئی پی ایس (انڈین پولیس سرویس ) عہدیدار اور انسپکٹر جنرل درجہ کے مسٹر اے وی رنگناتھ کو مقرر کیا ۔ اس سے پہلے وہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (GHMC) کے کمشنر آف انفورسمنٹ ، ویجلنس اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ رنگناتھ کی ٹیم نے سب سے پہلے 10 اگسٹ کو بم رکن الدولہ شاستری پورم میں غیرقانونی طورپر تعمیر کردہ عمارتوں کو منہدم کیا ۔ یہ علاقہ راجندرنگر سے بالکل قریب ہے اور ایک طویل عرصہ سے تاریخی آثار کے تحفظ میں سرگرم جہدکاروں و ماہرین ماحولیات نے جھیل کی گذرگاہ کے کم از کم 10 ایکر علاقہ اور بفرزون میں تعمیرات کی شدت سے مخالفت کی تھی ۔ بم رکن الدولہ جھیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 18 ویں صدی کی جھیل ہے ۔ اس کے بعد حیڈرا نے دیویندر نگر ، اور گجلا رمارم (یہ قطب اﷲ پور کے قریب ہے ) میں واقع جھیلوں کے FTL (فل ٹینک لیول ) پر تعمیر کردہ 52 غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کردیا ۔ ساتھ ہی نظام پیٹ میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والی ایراکنٹہ جھیل کے FTL پر تعمیر کی گئیں عمارتوں کو ڈھادیا ۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ جی ایچ ایم سی ، حیدرآباد میٹرو پالیٹن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور ٹاؤن پلاننگ کے عہدیداروں نے مبینہ طورپر جھیلوں وغیرہ پر عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی لیکن محکمہ آبپاشی نے کسی کو بھی این او سی جاری نہیں کیا ۔
اسی 5 روزہ کارروائی میں حیڈرا نے عثمان ساگر ( گنڈی پیٹ ) کے اطراف و اکناف کی تقریباً 40 عمارتوں پر اپنی توجہہ مرکوز کی تھی ۔ حیڈرا کو خیریت آباد کے رکن اسمبلی ڈی ناگیندر کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ حیڈرا نے ان کے اسمبلی حلقہ میں دو کارروائیاں کی ہیں۔ ناگیندر نے تو رنگناتھ کے خلاف اسمبلی میں تحریک مراعات پیش کرنے کی دھمکی دی کیونکہ حیڈرا نے ناگیندر کے حامیوں کی جانب سے ننداگری ہلز جیسے پاش علاقہ کے ایک پارک سے متصل تعمیر کردہ دریوار کو گرادیا تھا۔ اس مقام سے کچھ فاصلہ پر فلم ادکار بالا کرشنا کا مکان ہے ۔ ناگیندر کہتے ہیں کہ رنگناتھ جیسے عہدیدار آتے اور جاتے ہیں اور چونکہ وہ ( ناگیندر ) خود ایک مقامی ہیں جنھیں اپنے حلقہ کے عوام کے مفادات کی نگہبانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ ایک ذمہ دار عوامی نمائندہ ہیں ۔ انھوں نے اس مسئلہ کو چیف منسٹر ریونت ریڈی سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جبکہ حکومت نے رنگناتھ کو مکمل آزادی دی ہے ۔ وہ ایک سخت عہدیدار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور بلدیہ کے اُصول و قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی عمارتوں کو نشانہ بنانے کے معاملہ میں سختی سے کام لیتے ہیں ۔ مسٹر رنگناتھ نے انتباہ دیا ہے کہ جھیلوں وغیرہ پر تعمیر کردہ غیرقانونی عمارتوں کو زمین دوز کرنے کی کارروائی کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔
حیڈرا HYDRAA نے صرف 200 کروڑ روپئے کے بجٹ سے اپنی مہم شروع کی اور اس میں زیادہ تر رقم مشنری کی خریدی ، مزدوروں کی تعیناتی پر خرچ کی گئی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حیڈرا جلد ہی خود اپنا ایک پولیس اسٹیشن قائم کرے گا تاکہ غیرمجاز تعمیرات کرنے والے مالکین اور ان کی اجازت دینے والے خاطی عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے ۔ حیدرآباد سے کام کرنیو الے نیشنل ریموٹ سینسنگ سنٹر (NRSC) نے یہ انکشاف کیا ہے کہ حیدرآباد کی جھیلوں کی تعداد 1979 تا 2024 ء 61 فیصد تک محدود ہوکر رہ گئی ۔ چند دہوں قبل تک بھی حیدرآباد کو جھیلوں کا شہر کہا جاتا تھا ۔ اب اسی شہر حیدرآباد میں GHMC HMCDA ڈیٹا کے مطابق صرف 185 جھیلیں باقی رہ گئیں ہیں۔ ان جھیلوں کی موجودگی کا پتہ سیٹلائیٹ امیجس اور گوگل میاپس ( نقشوں ) کے ذریعہ لگایا گیا ۔ زمین پر ان کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ اسی طرح کا حال سیلابی پانی کی موریوں نالوں اور پارکس کا بھی ہے ۔ نالوں پر غیرمجاز قبضہ اور تعمیرات کی گئی ہیں نتیجہ میں بارش کے پانی کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ، نتیجہ رہائشی علاقوں اور سڑکوں پر پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ خاص طورپر مانسون میں ایسا ہوتا ہے ۔ ایسے وقت جبکہ تلنگانہ کی شہری آبادی میں سالانہ 3.2 فیصد اضافہ ہورہا ہے جو قومی اوسط سے زیادہ ہے ۔ حیدرآباد کے سلم اور زیریں علاقوں میں سیلابی پانی کے جمع ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جہاں زیادہ تر اضلاع اور دوسری ریاستوں سے آئے لوگ رہتے ہیں ۔ موریوں اور نالوں کے متصل ان لوگوں نے اپنی بستیاں بسالی ہیں اور جو مستقل مکانات تعمیر کروانے کے متحمل ہیں اُن لوگوں نے جھیلوں پر مکانات تعمیر کرلئے ہیں جبکہ عمارتوں و اراضیات کو باقاعدہ بنانے سے متعلق سابقہ بی آر ایس حکومت نے حیدرآباد میں امکنہ کے شعبہ میں افراتفری پیدا کی ۔
رنگناتھ کہتے ہیں کہ HYDRAA سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ اور نیشنل گرین ٹریبونل کے صادر کردہ فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جھیلوں پر کئے گئے ناجائز قبضوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے گی ۔ ایک اور بات یہ کہی گئی کہ HYDRAA ان سرکاری اراضیات اور بفر زونس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی جو انتظامی حقوق کو لیکر قانونی کشاکش کا شکار ہیں بلکہ وہ اسی طرح کی فورسیس قائم کرے گی جس طرح نکسلائیٹس کے خلاف گرے ہانڈس ، منشیات کے خلاف اینٹی نارکوٹک بیورو اور اسپیشل انٹلیجنس بیورو قائم کی گئیں ۔
حیڈرا نے حکومت کو 3000 اہلکاروں پر مشتمل فورسس کی تجویز پیش کی ہے ۔ اس بارے میں مجلس وزراء کا فیصلہ باقی ہے۔ HYDRAA کے اندازہ کے مطابق صرف اوٹر رنگ روڈ کے اندرونی حدود میں 400 سے زیادہ جھیلیں ہیں اور اس نے ان شکستہ مخدوش جھیلوں FTL کے تعین کیلئے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن NRSC اور ماہرین ماحولیات سے مدد حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اکثریت جھیلوں کے FTL سے متعلق ابتدائی نوٹیفکیشن ہیں لیکن ان کے رابطوں کا پتہ نہیں ۔ ایسے میں HYDRAA ، FTL کے بارڈرس پر اور FTL منطقوں و بفرزونس کی شناخت کیلئے ایک ایپ تیار کرے گا اور سارے علاقہ کو جالیوں سے محفوظ کردیا جائے گا ۔