ایمرجنسی میں بھی اتنی سختیاں نہیں تھیں
ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین منہ کھولیں
جو قوم کو یاد نہیں رکھتا، قوم بھی انہیں یاد نہیں رکھتی
محمد نعیم وجاہت
سنگھی سونچ اور نظریات کو آہنی پنجہ سے کچلا نہیں گیا تو یہ فرقہ پرستی کا وائرس چین کے کورونا وائرس سے خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوگا ، ملک کی تقدیر کو تبدیل کرنے کیلئے انقلاب وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ جب ابنقلابی تحریکات دم توڑنے لگتی ہیں تو ریاست ، ملک ، معاشرت ، جمہوری اقدار اور اخلاقیات زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اس لئے ہر دور میں انقلابی تحریکات کو زندہ رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے جو لوگ انقلابی تحریکات کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل حالت کی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ انقلابی تحریکات کے ذریعہ انقلابی قیادت کو فروغ حاصل ہو ۔ ہندوستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے وہ دراصل انقلابی تحریکات کو 70 سال کے دوران کچلنے کا نتیجہ ہے ۔ اس کیلئے نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ آزادی کے بعد سے ملک پر حکمرانی کرنے والا طبقہ بھی برابر کا ذمہ دار رہا ہے ۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی مسلمانوں نے ملک کی بقاء اور ترقی کے لئے ممکنہ حد تک اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے۔ مغلیہ دور میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان ہی تھے ۔ لیکن انگریز لٹیروں نے اپنی فسطائی ذہنیت کے ساتھ ہندوستان کو غلام بنالیا ۔ 1857 ء میں بہادر شاہ ظفر کے غدر سے 1947 ء تک مولانا آزاد کی جامع مسجد سے تقریر کے دوران ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں نے اس سرزمین کی آزادی کیلئے جام شہادت نوش کیا ۔ 1947ء سے 2020 ء تک کی 73 سالہ ہندوستانی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئیگی کے سرحدوں پر رائفل سے آسمان میں میزائیل تک مسلمانوں نے اس ملک کی حفاظت کے استعمال کا ہندوستان کو قابل بنایا ۔ حوالدار عبدالحمید ہو یا اے پی جے عبدالکلام ان لوگوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ہمیشہ سر اُٹھاکر جینے کے قابل بنایا لیکن دور حاضر کی فسطائی طاقتیں ہندوستان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو ملک کے غدار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے ۔
یہ اذیت ہی رلاتی ہے لہو کے آنسو
گھر میں ہم بھی دور دیوار کہے جاتے ہیں
ہم نے اس ملک کی تقدیر بدل دی لیکن
پھر بھی ہم ملک کے غدار کہے جاتے ہیں
7 دہوں سے مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انھیں غدار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے لیکن شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کے احتجاج کے خلاف مرکزی مملکتی وزیر فینانس و بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر نے گولی مارو … کو کا جو نعرہ دیا ہے اور اس پر جو ردعمل جامعہ ملیہ میں ظاہر ہوا اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ کوشش ناکام نہیں رہی ہے بلکہ 70 سالوں کے دوران جو نفرت کا زہر گھولہ گیا وہ اب ایک نسل میں سرائیت کرچکا ہے ۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ نے سب سے پہلے سیاہ قانون CAA کے خلاف احتجاج کیا جو سارے دیش کیلئے مثال بن چکا ہے ۔ اس احتجاج کی شمع جامعہ ملیہ میں جلی تھی مگر شعلہ بن کر سارے ہندوستان میں پھیل گئی ہے ۔ اگر گولی چلانے والا شخص رام بھکت گوپال کے بجائے زخمی ہونے والا طالب علم شاداب ہی ہوتا تو شاید پولیس بندوق کی گولیوں سے اُس سینے کو چھنی کردیتی اور یہ اعلان کردیا جاتا کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کردیا گیا تب سنگھی سونچ رکھنے والے ان پولیس عہدیداروں کو نہ صرف بہادر کہتے اور گودی میڈیا کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی کی پولیس نے دہشت گردی کی سازش کا خاتمہ کردیا ہے اور سارے گودی میڈیا چینلس صبح سے شام تک اس پر مباحث کرتے اور سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دیش کا غدار قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ۔ وزیراعظم مودی ، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے علاوہ بی جے پی کے قائدین اور ہندوتوا طاقتیں ’’شاہین باغ‘‘ کے احتجاج کو دہشت گردوں کی تائید حاصل ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کو دہلی اسمبلی کا انتخابی موضوع بنادیتے مگر رام بھکت گوپال کی دہشت گردی کو وطن پرست نظرانداز کررہے ہیں اور پولیس کی جانب سے اس کو نابالغ قرار دیتے ہوئے اس دہشت گرد کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جارہا ہے اور اس کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ گودی میڈیا کی جانب سے سیاہ قوانین کے خلاف کئے جانے والے احتجاج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اصل موضوع سے عوام کی توجہہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر کسی کا ذہنی توازن بگڑ ہوا ہوتا تو کیا وہ گولی چلانے سے قبل فیس بک پر لائیو کیوں آتا ؟ اور اپنے عزائم کا کس طرح اظہار کرتا؟ رام بھگت گوپال کسی انتخابی جلسہ یا کسی اور کو نشانہ بنانے کے بجائے جامعہ ملیہ کا ہی کیوں انتخاب کرتا ۔ اس کا باریک بینی اور مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے دہلی کے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس طرح کا بٹن دبائے کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ میں محسوس ہو۔ بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہین باغ کے احتجاج کرنے والوں سے ہماری بہو بیٹیوں کی عزت کو خطرہ ہے ۔ سب سے پہلے ایسے اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے اور انھیں سرکاری طورپر ملک کا غدار قرار دینے کی ضرورت ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دینے والوں کو اب اس دیش میں مسلمان کھٹکنے لگے ہیں۔
ریاست تلنگانہ کے صدر مقام حیدرآباد میں بھی غیرمعلنہ ایمرجنسی دیکھی جارہی ہے ۔ ایک طرف تلنگانہ حکومت سیاہ قوانین کے خلاف ہونے کا تاثر دے رہی ہے اور آئندہ بجٹ سیشن میں چیف منسٹر کے سی آر نے سیاہ قوانین کے خلاف قرارداد منظور کرنے اور ضرورت پڑنے پر شہر حیدرآباد میں 10 لاکھ عوام کا احتجاجی جلسہ منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جو قابل ستائش فیصلہ ہے ۔ کبھی سیاہ قوانین کے احتجاج میں شامل نہ ہونے والے ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین نے اس فیصلے پر جشن منایا اور چیف منسٹر کی تصویر کو دودھ سے بھی نہلایا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت قانون کے خلاف ووٹ دیا ، حکومت اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے والی ہے تو پولیس پرامن احتجاج کرنے والوں کو کیوں روک رہی ہے ؟ حیدرآباد میں ایک اور شاہین باغ بننے پر پولیس کو کیا اعتراض ہے ؟ لاکھوں عوام کے ساتھ ملینیم مارچ اور ترنگا ریالی منظم کی گئی تقریباً دو ماہ سے شہر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع میں پرامن ریالیاں و جلسے منعقد کئے گئے کہیں کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیش نہیں آیا پھر کیا وجہ ہے پولیس جمہوری انداز میں کئے جانے والے احتجاج کو روک رہی ہے ۔ دستور نے احتجاج کرنے کا شہریوں کو مکمل اختیار دیا ہے پھر کیوں پولیس اس حقوق کو سلب کررہی ہے اور حکومت کیوں خاموش ہیں ۔ پولیس اپنی طرف سے رکاوٹیں پیدا کررہی ہے یا حکومت کے اشارے پر احتجاج کو کچل رہی ہے ۔ کنہیا کمار کے جلسہ عام کی اجازت نہیں دی گئی ۔ بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد کو شہر حیدرآباد میں گرفتار کیا گیا۔ وزیرداخلہ کا اقلیتی طبقہ سے تعلق ہے ٹی آر ایس اور حکومت بھی سیاہ قوانین کے خلاف ہے ۔ پھربھی حیدرآباد میں احتجاج کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ ایمرجنسی میں بھی حیدرآباد میں اتنی سختیاں نہیں کی گئی جتنی آج پولیس کی جانب سے سختیاں کی جارہی ہے ۔ پرانے شہر میں طویل عرصے تک ڈی سی پی کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ایک پولیس عہدیدار جو راماگنڈم کے کمشنر ہے اُنھیں پرانے شہر میں احتجاج کو روکنے کیلئے خصوصی ڈیوٹی پر طلب کیا گیا ہے ۔ ہمارے پاس مضبوط قیادت ہے سیکولرازم کے چمپیئن ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ہے پھر بھی سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کرنے سے روکا جارہا ہے ۔ اس سے حکومت کی دوغلی پالیسی ظاہر ہوتی ہے ۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو اقلیتوں کے مفادات کی خاطر منہ کھولے کی ضرورت ہے ۔ زندہ ضمیر ہونے کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے ۔ صرف واہ واہ کرنے سے نہ حکمرانوں میں عزت رہے گی اور نہ ہی قوم اُنھیں یاد رکھیں گی ۔
پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر نوجوان طبقہ اچانک فلیش پروٹیٹس کرنے پر مجبور ہورہا ہے جس سے پولیس بھی پریشان ہے ۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین بھیس بدل کر روزنامہ سیاست پہونچ جایا کرتے تھے یہ کام غدر نے بھی کیا تھا ۔ پرامن احتجاج کرنے کیلئے اہم قائدین کو اجازت نہیں دی جارہی یہ تو انھیں بھی یہی طریقہ اپنانا چاہئے ۔ اپنے حقوق اور دستور کو بچانے کیلئے بھیس بدل کر احتجاج میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ ٹی آر ایس کی مسلم دوستی اور سیکولرازم ہمیشہ مشتبہ رہی ہے ۔ حالیہ 120 بلدیات اور 10 کارپوریشنس کے انتخابات میں ٹی آر ایس نے 117 بلدیات اور تمام 10کارپوریشنس بھی کامیابی حاصل کی ہے مگر بلدیات کے صدورنشین اور میئرس کے انتخاب میں 12 فیصد مسلم تحفظات کو فراموش کردیا گیا اگر 12 فیصد تحفظات پر عمل کیا جاتا تو کم از کم 12 بلدیات کے صدرنشین مسلمان ہوتے اور کم از کم ایک مسلم میئر ہوتا مگر سماجی انصاف کرنے کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس اپنا وعدہ بھول گئی اور قیادت نے بھی حکومت کو یاد دلانے میں جراتمندی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین بھی حق کی آواز اُٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔ ایسا لگتا ہے جو قائدین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے انھیں ڈر ہے کہ کہیں قوم کی بات کی گئی تو اُنھیں اپنے عہدوں سے محروم ہونا پڑے گا یا حکمراں طبقہ کی اُن پر نظرعنایت نہیں رہے گی ۔
زمانہ شاہد ہے جو قوم کو یاد نہیں رکھتا قوم بھی اُنھیں یاد نہیں رکھتی برسرعام آواز اُٹھانے کی جرأت نہ کرسکے تو کم از کم پارٹی حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا ضروری ہے ۔ آپ کو سن کر اور جان کر تعجب ہوگا جس طبقہ کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے اُس طبقہ کو کریم نگر میونسپل کارپوریشن کا میئر بنایا گیا ہے اور 14فیصد آبادی رکھنے والے اقلیتوں کو ٹھینگہ بتایا گیا ہے ۔ جمہوریت میں زندہ ہونے کا ثبوت دینے والی قوموں کو اہمیت اور ترجیح دی جاتی ہے ۔