کے سی آر کی تائید کیلئے مسلمانوں سے اپیل پر سوالیہ نشان، ماموں اور بھانجے کو قبرستان کی اراضی کے بجائے زندہ لوگو ں کی فکر کرنی چاہیئے
( سوشیل میڈیا میں مسلمانوں کے سوالات،12 فیصد تحفظات، اسلامک سنٹر، اجمیر رباط کا کیا ہوا ؟)
حیدرآباد۔/27 ستمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کی سیاست میں ان دنوں ’’ نکٹے ماموں‘‘ اور ان کے ’’ بھانجے‘‘ کے چرچے چل رہے ہیں۔ برسر اقتدار بی آر ایس اور اس کی حلیف مجلس کے درمیان اسمبلی انتخابات سے قبل دوستی محض سیاسی نہیں بلکہ علامتی طور پر رشتہ داری میں تبدیل ہوچکی ہے اور ہر خاص و عام کی زبان پر ’ نکٹے ماموں‘ اور ان کے ’ بھانجے‘ سے متعلق تبصرے کئے جارہے ہیں۔ انتخابات سے عین قبل حلیف جماعت نے جس طرح شدت سے کانگریس کی مخالفت اور بی آر ایس کی تائید کا جو موقف اختیار کیا ہے وہ نہ صرف رائے دہندوں بلکہ سیاسی مبصرین کیلئے بھی حیرت کا باعث ہے۔ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد INDIA میں مجلس اور بی آر ایس کی عدم شمولیت نے دونوں پارٹیوں کو اور بھی ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے اور کل تک کے سی آر کو چیف منسٹر کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن آج کے سی آر ابتداء میں ’’ انکل‘‘ اور پھر اب ’’ ماموں‘‘ بن چکے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں مجلس کے صدر اسد اویسی نے ایک سے زائد مرتبہ کے سی آر کو انکل سے مخاطب کیا جبکہ گذشتہ دنوں میلادالنبیؐ کے جلسہ عام میں ’ ماموں‘ کہہ کر پکارا ۔ انہوں نے حیدرآباد کی مشہور مثل ’’ نئیں ماموں سے نکٹے ماموں‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کے سی آر کو مسلمانوں کیلئے غنیمت قرار دیا۔ دونوں پارٹیوں کو تکلیف اس بات کی ہے کہ کانگریس نے انہیں اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا ‘ میں شامل نہیں کیا۔ مشترکہ ناراضگی نے ایک دوسرے کو سیاسی رشتہ دار بنادیا ہے۔ سوشیل میڈیا میں حیدرآباد کے عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ چیف منسٹر جو اچانک ’’ ماموں‘‘ بن گئے انہوں نے مسلمانوں کیلئے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ انہیں ’ نئیں ماموں سے نکٹے ماموں‘ کی طرح ترجیح دی جارہی ہے۔ سوشیل میڈیا میں عوام کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ صدر مجلس کے نکٹے ماموں نے گذشتہ 9 برسوں میں ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ ابھی سے بی آر ایس کے حق میں مسلمانوں سے ووٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔ انتخابات سے عین قبل مسلمانوں کو قبرستان کیلئے شہر کے مضافات میں 125 ایکر اراضی الاٹ کی گئی۔ مجلس کی قیادت چیف منسٹر کی جانب سے مسلمانوں کی آخری آرامگاہ کا انتظام کرنے کو اہم کارنامے کے طور پر پیش کررہے ہیں جبکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ لوگوں کیلئے حکومت نے کیا ،کیا۔ فکر تو پہلے زندہ لوگوں کی ہونی چاہیئے، مرنے کے بعد تو کہیں نہ کہیں دو گز زمین مل ہی جاتی ہے۔ عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو چار ماہ میں 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا پورا ہوگیا کہ اچانک کے سی آر کو ’ماموں‘ اور ’ انکل‘ کا لقب دیا گیا۔ قیادت نے آج تک کھل کر 12 فیصد تحفظات کی فراہمی میں ناکامی پر سوال نہیں اٹھایا۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے وقف بورڈ کو جوڈیشیل پاورس کا اسمبلی میں اعلان کیا گیا تھا جو آج تک وفا نہیں ہوسکا۔ اوقافی جائیدادوں کے ریکارڈروم کو ابھی بھی حکومت کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کو قبرستان کی اراضی سے زیادہ ڈبل بیڈ روم مکانات کی ضرورت ہے۔ مکانات میں مسلمانوں کو 12 فیصد حصہ داری کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ ایس سی، ایس ٹی کے مماثل اقلیتوں کو بھی تمام مراعات فراہم کرنے کا وعدہ بھی آج تک صرف کاغذی ثابت ہوا۔ شادی مبارک، اقلیتوں کو قرض کی فراہمی، فیس ری ایمبرسمنٹ، اوورسیز اسکالر شپ اور دیگر اسکیمات پر عمل آوری کی صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے۔ ان اسکیمات کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں درخواستیں زیر التواء ہیں۔ ائمہ اور موذنین گذشتہ چار ماہ سے ماہانہ اعزازیہ سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کو معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے دلت بندھو کی طرح مسلم بندھو اسکیم کی ضرورت ہے۔ دلتوں کو 10 لاکھ اور تلنگانہ میں صرف 10 ہزار مسلمانوں کو ایک لاکھ روپئے کی امداد کیا مسلمانوں کے ساتھ ’ ماموں‘ کا یہی انصاف ہے؟۔ حکومت نے زندہ لوگوں سے زیادہ مرحومین کی فکر کرتے ہوئے شہر کے اطراف پانچ مقامات پر 125 ایکر اراضی الاٹ کرنے کے احکامات تو جاری کردیئے لیکن اراضی پر وقف بورڈ کا قبضہ کب حاصل ہوگا کہا نہیں جاسکتا۔ کوکہ پیٹ میں اسلامک سنٹر کیلئے 10 ایکر اراضی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن آج تک یہ اراضی تحویل میں نہیں آئی اور 50 کروڑ سے اسلامک سنٹر کی تعمیر کا خواب ادھورا ہے۔ راجستھان میں اجمیر رباط کی تعمیر کا اعلان بھی مکمل نہیں ہوا۔ اراضی کے حصول کا دعویٰ کیا گیا لیکن سنگ بنیاد نہیں رکھا جاسکا۔ درگاہ حضرت جہانگیر پیراںؒ کے ترقیاتی کاموں کا آج تک آغاز نہیں ہوا حالانکہ چیف منسٹر نے تلنگانہ کی تشکیل کیلئے درگاہ شریف پر حاضری اور منت کے بعد ترقیاتی منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ عوام کا کہنا ہے کہ ماموں اور بھانجے کو مرحومین سے پہلے زندہ لوگوں کی بھلائی کی فکر کرنی چاہیئے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ قبرستانوں کیلئے اراضی کا الاٹمنٹ ہی مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کو کب تک قبرستانوں کی اراضی کے نام پر خوش اور مطمئن کیا جائے گا۔ مسلمانوں کی پسماندگی کا خاتمہ قبرستان کی اراضی نہیں ہے، یہ تو دنیا سے گذرنے کے بعد آخری آرامگاہ ثابت ہوگی۔
