مسلمانوں کے تعلیمی، فکری اور اخلاقی زوال کا آئینہ دار
lقیادت بے بس l پالیسی میں جھول l کل جماعتی اجلاس کی ضرورت
مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
کچھ عرصہ سے پرانے شہر کے مسلمانوں کی حیثیت ایک لاوارث کی طرح معلوم ہورہی ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ اُن کا کوئی نگران ہے اور نہ کوئی خیرخواہ۔ ہر ایک اپنی مستی میں مدہوش ہے۔ نہ کوئی کسی کو بڑا سمجھنے تیار ہے اور نہ کسی کا احترام کرنے آمادہ ہے۔ اُن کی حالت اندھے کی بکریوں کی مانند ہے جن کا اللہ تعالیٰ ہی حافظ و ناصر ہے۔ بظاہر کوئی درد رکھنے والا، بہی خواہ موجود نہیں۔ جب سے ہمارے اکابر مثلاً مرحوم قائد سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسی، حضرت مولانا حمیدالدین عاقل، مولانا محمد عبدالرحیم قریشی مرحوم اس دنیا سے رخصت ہوئے پرانا شہر فکری اور مذہبی اعتبار سے انتشار اور انارکی کا شکار ہے۔ مثال کے طورپر کچھ سال قبل راجہ سنگھ نے شانِ رسالت مآب ﷺ میں بے ادبی و گستاخی کی، اہلیان حیدرآباد کے جذبات بھڑک اُٹھے اور احتجاج شروع ہوگئے لیکن جماعت اسلامی، تعمیرملت، مسلم پرسنل لاء بورڈ، یونائٹیڈ فورم اور صدر مجلس علماء دکن میں سے کسی نے احتجاج میں نہ حصہ لیا اور نہ ہی نوجوانوں کی رہنمائی کی اور معصوم نوجوان کسی لیڈر شپ کے بغیر اپنے طورپر پُرزور احتجاج کئے، پولیس کے ڈنڈے کھائے، گرفتار ہوئے لیکن کسی سیاسی پارٹی کا کوئی پولیٹکل ورکر گرفتار نہ ہوا۔ البتہ اُن نوجوانوں کو فی الفور چھڑانے میں مجلس اتحادالمسلمین کا کردار قابل تحسین رہا۔
تلنگانہ کا مسلمان پورے ہندوستان میں اپنے سیاسی شعور اور سیاسی بصیرت میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تاہم تلنگانہ میں مسلمانوں کے بابت سیاسی انتشار کی طرف توجہہ کرنا بھی ناگزیر ہے۔ واضح رہے کہ سیاست میں حصہ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کا حصہ بن کر حکومتی ادارہ جات میں اصلاحات لاکر قوم و ملت کے معاشی، تعلیمی اور طبی معیارات کو بلند کیا جائے۔ اگر حکومت کاحصہ نہ بن سکے تو اپوزیشن میں رہکر اپنی بہترین تجاویز اور تنقید سے حکومت کے دھارے کو اصلاحات اور ڈیولپمنٹ کی طرف موڑنا ہوتا ہے۔ اگر ہم صرف اقلیتوں کے لئے مختص کردہ فنڈز کو دیکھیں تو کبھی بھی اُس کا برابر استعمال نہیں ہوتا۔ وقف بورڈ دن بہ دن تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم کس سے سوال کریں کہ آج ہندو وقف بورڈ، مسلمان وقف بورڈ سے زیادہ محفوظ کیوں ہے؟ تلنگانہ وقف بورڈ کے تحفظ کیلئے ہم نے حکومت کو کیا تجاویز اور منصوبے پیش کئے ہیں؟ میناریٹی ڈپارٹمنٹ سب سے ناکارہ ادارہ ہے۔ آدھے سے زیادہ فنڈز استعمال ہوئے بغیر واپس کردیئے جاتے ہیں۔ اقلیتوں کیلئے کھولے گئے اقامتی اسکولس میں اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے مقابل میں زیادہ مستفید ہورہا ہے۔
شہر کی ترقی دیکھنا ہو تو شہر کے اطراف و اکناف میں ایسا ڈیولپمنٹ آیا ہے کہ مغربی ممالک خیرہ ہوجائیں اور جہاں مسلمان آبادیاں ہیں وہاں کسی قسم کا ڈیولپمنٹ نہیں۔ مسلمان بچے اسکولس جانے کے بجائے مزدوری کررہے ہیں، نوجوان لڑکے تعلیم ترک کرکے غیرمسلمین کے پاس کپڑوں کی، جوتوں کی دوکانوں میں یا بطور ڈرائیور و ملازم کام کررہے ہیں۔ کیا حکومتوں کے ساتھ ملکر، حکومتی ادارہ جات کو فعال و کارکرد بنائے بغیر نیز اقلیتوں کے لئے مختص فنڈز کو صحیح مصرف میں دانشمندانہ استعمال کئے بغیر مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی اعتبار سے بلند کرنا ممکن ہے؟
اب تھوڑی سی نظر مسلمانوں کے فکری اور مذہبی انتشار پر ڈالتے ہیں کہ کس طرح پرانے شہر میں دینی مدارس و جامعات کی بالا دستی اور سند یافتہ و تربیت یافتہ علماء کے اثر کو کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ چنانچہ پندرہ یا سولہ سال قبل کچھ ناعاقبت اندیش نوجوانوں نے مرکزی میلاد جلوس کی تحریک چلائی اور یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کی فطرت میں لھوو لعب موجود ہے۔ بناء بریں لغویات اور خرافات نادان طبقہ میں بہت جلد سرایت کرجاتے ہیں۔ جب پرانے شہر میں Sunday Funday کو فروغ دیا گیا اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بے حیائی و بے غیرتی ظاہر ہوئی تو چونکہ وہ شریعت کے خلاف تھی آوازیں اُٹھیں اور وہ کلچر ختم کردیا گیا لیکن وہی بے وقاری و بے غیرتی میلاد جلوس کے نام پر شروع ہوئی تو لوگ اُس کو دین کا حصہ سمجھ کر ثواب کی نیت سے کرنے لگے۔ بطور خاص وہ عوامی سنیت کی دلیل بن گیا۔ اس کی اصلاح کے لئے اُٹھنے والی ہر آواز سنیت کے خلاف سمجھی جانے لگی، یہ کیسا فکری زوال ہے؟
جلوس آرگنائزرس نہ سند یافتہ ہیں اور نہ تربیت یافتہ بلکہ وہ تعلیم و تربیت سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ اس لئے کہ قوم و ملت کو سڑکوں پر لانا نہ علماء کا کام ہے اور نہ روحانی بزرگوں کا بلکہ یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ بناء بریں سڑکوں پر قوم و ملت کاآنا صدفیصد سیاسی ہے اس کا مذہب اور شریعت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ جب جلوس کو منظم کرنے جامعہ نظامیہ سے فتویٰ صادر ہوا اور مضامین لکھے گئے تو جلوس آرگنائزرس نے علماء و مفتی حضرات کو تنقید کانشانہ بنانا شروع کیا اور اخلاقیات کی تمام حدود کو پار کردیا، اس کے باوصف جب اُن کی پشت پناہی کی گئی تو اُن کو مزید تقویت حاصل ہوگئی چنانچہ پہلی مرتبہ جلوس آرگنائزرس کی جانب سے کھلے عام صحابہ کرام کی بے ادبی و گستاخی شروع ہوگئی حتی کہ افضلیت شیخین کا بھی برملا انکار کردیا گیا اس طرح مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کی سازش کامیاب رہی۔ جب جلوس آرگنائزرس کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اُن میں سے بعض مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، بعض پر Criminal Cases درج ہیں۔ بعض موقوفہ قبرستانوں اور زمینات کو فروخت کرنے میں ملوث پائے گئے اور بعض پر غنڈہ عناصر کی پشت پناہی اور کمزور یتیموں اور بیواؤں کی جائیدادیں ہڑپنے کے الزامات ہیں۔
ایسے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے مرکزی میلاد جلوس حیدرآباد کے ذمہ دار ہیں اسی لئے شاید یونائیٹڈ فورم، تعمیر ملت، جماعت اسلامی، مسلم پرسنل لاء بورڈ، صدر مجلس علماء دکن اور دیگر مکاتب فکر کے ذمہ داروں میں سے کوئی اُن کی تردید کی ہمت نہیں کررہا ہے۔ کیونکہ اُن کو سخت ردعمل کا خدشہ ہے اور پرانے شہر کی عوام مجبور و بے بس کی طرح ملت کی اس بے وقاری کا مشاہدہ کررہی ہے لیکن اس کو روکنے کی ہمت نہیں۔ نہ جانے جلوس کے آرگنائزرس اور اُن کی پشت پناہی کرنے والے کس منھ سے میدانِ حشر میں رسول ِ مقبول ﷺ کا سامنا کریں گے۔ عشقِ رسولؐ کے جذبات کا استحصال کرنے والے میرے نزدیک سب سے زیادہ خسیس ہیں۔ یہ کسی صورت میں ملت کے بہی خواہ اور خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔