خصوصی ریونیو ٹریبونلس کی کارکردگی پر ہائی کورٹ کو شبہات

   

20 دن میں 16 ہزار معاملات کی یکسوئی کیسے ہوگی، چیف جسٹس کا حکومت سے سوال
حیدرآباد: تلنگانہ ہائی کورٹ میں 16,000 سے زائد اراضی تنازعات کی اندرون 20 دن یکسوئی کیلئے حکومت کی جانب سے خصوصی ٹریبونلس کے قیام پر حیرت کا اظہار کیا۔ کلکٹرس اور ایڈیشنل کلکٹرس کو حکومت نے اراضی تنازعات کی اندرون 20 یوم یکسوئی کی ہدایت دی ہے۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اس قدر کم عرصہ میں ٹریبونل کس طرح 16,000 تنازعات کی یکسوئی کرپائے گا۔ چیف جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے سرکاری وکیل سے اس بارے میں جاننا چاہا کہ معاملات کی یکسوئی کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اراضی سے متعلق تنازعات میں ملکیت اور دیگر معاملات شامل رہتے ہیں، ایسے میں خصوصی ٹریبونل کس طرح دو ہفتوں میں تنازعات سے نمٹ سکے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارک کیا کہ اگر یہ ثابت کردیا گیا کہ خصوصی ٹریبونلس مختصر وقفہ میں ہزاروں تنازعات یکسوئی کرسکتا ہے تو ہندوستانی کی عدلیہ تلنگانہ سے سیکھے گی کہ زیر التواء مقدمات کی عاجلانہ یکسوئی کیسے کی جائے ۔ ڈیویژن بنچ نے بھدرا چلم سے تعلق رکھنے والے ایڈوکیٹ کی جانب سے داخل کردہ مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت کی ۔ ایڈوکیٹ نے کہا کہ ٹریبونلس میں ایڈوکیٹس کو مقدمات کی پیروی کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ کے اصولوں کے مغائر ہے۔ ہر فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ حکومت نے تمام ریونیو کورٹس کو کالعدم کرتے ہوئے خصوصی ٹریبونلس قائم کئے ہیں جو تلنگانہ رائٹس ، لینڈس اینڈ پٹہ دار پاس بک ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ہیں۔کلکٹر اور ایڈیشنل کلکٹرس ٹریبونلس کے ارکان مقرر کئے گئے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل بی ایس پرساد نے حکومت کا موقف پیش کرنے کیلئے وقت مانگا۔ عدالت نے آئندہ سماعت 2 مارچ کو مقرر کی ہے۔