دستور اور جمہوریت کی مخالفتکون اور کیوں کررہا ہے؟

   

آر والمیکی

گذشتہ دس گیارہ برسوں سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دستور کے نام پر غیر دستوری کام کئے جارہے ہیں۔ دستور سے کھلواڑ کیا جارہا ہے ، دستور کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اس عرصہ میں یہ بھی دیکھا گیاہے کہ حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے دستور تبدیل کرنے کے مطالبات بھی کئے گئے اور اب تو عدالتوں کو بھی اس معاملہ میں بری طرح گھسیٹا جارہا ہے۔حال ہی میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا جو یقینا دستور ہند کے مخالفین کے چہروں پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ دراصل عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ دستور کی تمہید یا دیباچہ سے سوشلزم اور سیکولرزم جیسے الفاظ ہٹادیئے جائیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دستور کا دیباچہ ہمارے دستور اور جمہوریت کی بنیاد کا پتھر ہے اور ہمارے دستور میں جوالفاظ ہیں ان کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہر لفظ اہم اور بامعنی ہے۔
جہاں تک دستور اور اس کے دیباچہ کا سوال ہے اس کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں ہے( آج وہ لوگ اور وہ جماعتیں ؍ تنظیمیں اقتدار میں ہیں جو ماضی میں دستور ہند یہاں تک کہ ہمارے ملک کے ترنگے یا قومی پرچم کے کٹر مخالف رہے جن کی سرپرست تنظیم اور اس کے بانیوں و نظریہ سازوں نے دستور اور قومی پرچم کو ماننے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ یہ ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہے جبکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی جانب سے تیار کردہ یہ دستور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی روح ہے جس میں تمام ہندوستانی باشندوں کو بلالحاظ مذہب و ملت‘ رنگ و نسل‘ ذات پات و علاقہ مساویانہ مقام عطا کیا گیا ہے، مساویانہ حقوق عطا کئے گئے ہیں )۔ اگرچہ آئین کے دیباچہ سے سیکولرازم اور سوشلزم جیسے الفاظ ہٹادینے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی لیکن 25 نومبر کو عدالت عظمیٰ نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔ اگرچہ درخواست مسترد کردی گئی لیکن ہمیں اس کے مضمرات کی گہرائی تک پہنچنے اور انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جو عناصر آئین کے دیباچہ سے سیکولر اور سوشلسٹ جیسے اہم ترین الفاظ ہٹائے جانے کے خواہاں ہیں وہ یہ مانتے ہیں کہ یہ الفاظ دستور یا آئین کے دیباچہ میں کیسے ہوسکتے ہیں کیونکہ آئین کی تمہید 26 نومبر 1940 تک تحریر کی جاچکی تھی۔ جبکہ یہ دونوں الفاظ 1976 میں دستوری ترمیم 42 کے تحت شامل کئے گئے ہیں۔ اسی طرح کے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ دستور کی تمہید سے سیکولر اور سوشلسٹ جیسے الفاظ حذف کرنے کے مطالبہ میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ ان عناصر کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہندوستان شروع سے ایک سیکولر ملک ہے اور اسے ثابت کرنے کیلئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے ملک میں مذہب‘ ذات پات‘ رنگ و نسل اور علاقہ یہاں تک کہ نسل کی بنیاد پر کسی سے کسی بھی قسم کا کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا چاہے سیکولرازم یا سوشلزم جیسے الفاظ دستور کی تمہید میں ہوں یا نہ ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے خیالات سے کبھی بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے ملک میں مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے جاتے رہے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات ہو یا دہلی میں 2020 کو پیش آئے خطرناک فسادات یا پھر حالیہ عرصہ کے دوران بہرائچ کے بشمول اُتر پردیش کے مختلف مقامات پر پیش آئے دنگوں کے واقعات۔ یہ تو مذہب کے نام پر برپا کئے جانے والے فسادات ہیں جبکہ ذات پات کی بنیاد پر آج کل سے نہیں بلکہ صدیوں سے کمزور طبقات‘ اعلیٰ ذات والوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں۔
دلتوں کا استحصال ہمارے ملک میں روز کا معمول ہے، انہیں ظلم و جبر کا مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ دلت خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ذات کا نام لیکر دلتوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، انہیں مختلف بہانوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگر دلتوں کے خلاف مظالم ان کی خواتین کے ساتھ جنسی استحصال ، ان کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز سلوک کا جائزہ لیں تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک میں ماضی میں اور اب بھی آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن سے یقینا انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، انہیں ذلیل کیا گیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دلتوں کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ خود ساختہ و نام نہاد اعلیٰ ذات والوں کے ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کریں یا ان کے برتنوں سے پانی پی لیں‘ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو نہ صرف انہیں مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ ان کے خلاف ذات پات سے متعلق الفاظ استعمال کرکے ان کی بار بار توہین کی جاتی ہے۔آپ نے، ہم نے اور اکثر ہندوستانیوں نے دلتوں کے ساتھ پیش آئے ایسے واقعات کا مشاہدہ بھی کیا اور ان کے بارے میں پڑھا ہے۔
ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں دیکھا گیا کہ ذات پات، ادنیٰ و اعلیٰ کے نام پر دلتوں کو پیشاب پلایا گیا، ان کے چہروں پر ان کے جسموں پر پیشاب کیا گیا۔ مثال کے طور پر حالیہ عرصہ کے دوران کانپور میں ایک دلت طالب علم کو صرف اس لئے شدید زدوکوب کیا گیا کیونکہ اس نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس میں معمار دستور ڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر لگارکھی تھی، اس طالب علم کو نہ صرف زدوکوب کیا گیا بلکہ اسے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور بھی کیا گیا۔ ملک کے کئی مقامات پر دلتوں کو اعلیٰ ذات والوں کی شادیوں میں شرکت کرکے کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا، کسی میڈیکل ہال میں اعلیٰ ذات والوں کے ساتھ رعب دار انداز میں بات کرنے یا پھر گھوڑی پر بارات نکالنے پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور حیرت اس بات کی ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہاں مذہب‘ ذات پات‘ رنگ و نسل اور علاقہ کی بنیاد پر کسی قسم کی توہین نہیں کی جاتی، کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جاتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ آخر کیوں ؟ ۔ یہاں چیف منسٹر اُترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی حکومت کے غیردستوری اقدامات کی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ ٹھیلہ بنڈیوں سے لیکر ریسٹورنٹس و ہوٹلوں کے بورڈس پر مالکین ( کاروبار کرنے والوں ) کے نام لکھے جائیں تاکہ گاہکوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کس مذہب‘ کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کاروبار کرنے والا مسلمان اور دلت ہو تو پھر اس سے سامان و کھانے پینے کی اشیاء کی خریدی بند کردی جائے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جو فرقہ پرست عناصر ہیں اس معاملہ میں بی جے پی کے کئی لیڈروں نے صاف طور پر برسرعام یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کاروبار نہ کریں، ان سے ملاقات نہ کریں ، ان کا سماجی اور تجاتی مقاطع کیا جائے، یہ ایک نفرت انگیز سوچ ہے جسے آج کے ہندوستان میں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت فروغ دیا جارہا ہے۔ اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کرنے کی بجائے سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔
اگر ہم حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو ملک میں فی الوقت فرقہ پرستی کی جو سوچ پنپ رہی وہ یقینا ہمارے ملک، اس کی جمہوریت، اس کے دستور اور ملک کے سکولرازم کیلئے بہت خطرناک ہے۔ حالانکہ ہندوستان جیسے ایک عظیم ملک میں جہاں کی جمہوریت ساری دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان اور شناخت رکھتی ہے، تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سیکولرازم اور سب سے یکساں سلوک اور سوشلزم کا احساس ہونا چاہیئے۔ تمام شہریوں کو بلالحاظ مذہب و ملت‘ رنگ و نسل اور جنس و علاقہ مساویانہ حقوق ملنے چاہیئے۔ آپ کو یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور کی اصل دیباچہ ؍ تمہید میں ہمارے ملک کو ایک خود مختار اور جمہوری ملک کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ ان دو الفاظ کے ساتھ ایمرجنسی کے دوران 1976 میں 42 ویں ترمیم کی گئی اور اس ترمیم کے ذریعہ سیکولراور سوشلسٹ جیسے الفاظ شامل کئے گئے ہیں۔ درخواست گذار نے اس ترمیم کو لیکر اعتراض کیا تھا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا درخواست گذار ہمارے ملک کو ایک مذہب کی پیروی کرنے والا ملک بنانا چاہتا ہے، کیا وہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کو صرف ایک کمیونٹی کی اجارہ داری والا ملک بنانے کا خواہاں ہے۔ آج اس قسم کے عناصر کو یہ جان لینا چاہیئے کہ ان کی سوچ و فکر میں تبدیلی کی ضرورت ہے آئین میں نہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ معمار دستور بابا صاحب امبیڈکر نے خود اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے خواہاں عناصر کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندو راج اس ملک کیلئے سب سے بڑی آفت ہوگی اور ہندو راشٹر کا خواب آزادی اخوت، مساوات کے خلاف ہے۔