دستور میں ترمیم کیلئے حکومت کی ضداپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں سے دشمنی

   

پی چدمبرم ،سابق مرکزی وزیر داخلہ
لوک سبھا انتخابات 2024 ء کے فوری بعد میں نے اس بات کی پیش قیاسی کی تھی کہ بی جے پی حکومت ہی ملک کو چلائے گی جیسا کہ اس نے پہلی دو معیاد کے دوران چلائی ( دو معیادوں کے دوران ملک میں جو کچھ بھی ہوا اور اب بھی جو کچھ ہورہا ہے اس بارے میں سب جانتے ہیں ) ہاں ایک بات ضرور ہے کہ عام انتخابات 2024 ء میں وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور دوسرے بی جے پی قائدین کے دعوؤں کے برعکس پارلیمنٹ میں اس کے ارکان کی تعداد گھٹ کر 240 ہوگئی ( اکثریت کیلئے درکار نشستوں سے بہت کم نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کیلئے 242 نشستوں کا حاصل کرنا ضروری ہے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرپائی ۔ اس کے باوجود بی جے پی کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ پارلیمنٹ میں 16 ارکان کی حامل تلگودیشم اور 12 پارلیمانی نشستیں رکھنے والی جنتادل یو نے اسے اپنی تائید و حمایت دی ہے جو یقینا بہت اہم ہے ۔ اگر ہم بی جے پی کے 240 ، اُس کی تائید کرنے والی تلگودیشم اور جنتادل یو دونوں کے 38 ارکان کے ساتھ ساتھ این ڈی اے میں شامل دوسری جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو جمع کرلیں تو این ڈی اے کے جملہ ارکان کی تعداد 293 بنتی ہے جو اُس اکثریت سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو بی جے پی نے 2014 ء اور 2019 ء میں بالترتیب 272 اور 303 نشستوں پر کامیاب ہوتے ہوئے حاصل کی ۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ مسٹر نریندر مودی نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے پارٹی ارکان اور اتحادی جماعتوں کو قائل کروایا کہ اُنھیں ( مودی ) کو عوام کی اسی طرح تائید حاصل ہوئی جس طرح 2014 ء اور 2019 ء کے عام انتخابات میں ملی تھی اس طرح این ڈی اے کے منتخبہ ارکان پارلیمان میں ابتداء میں جو مایوسی پھیلی ہوئی تھی وہ دور ہوگئی ۔
تکبر کی واپسی : عام انتخابات 2024 میں بی جے پی کو سادہ سی اکثریت نہ ملنے پر سیاسی پنڈتوں اور تبصرہ نگاروں نے بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کو ایک ایسی اقلیتی حکومت قرار دیا جو تیسری معیاد میں بہت ہی محتاط ہوگی اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے گی ۔ پہلے کی طرح جارحانہ رویہ نہیں اپنائے گی لیکن راقم الحروف نے سیاسی پنڈتوں ، تبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا تھا ۔ ان لوگوں نے سوچ لیا تھا کہ مسٹر نریندر مودی اس مرتبہ پارلیمنٹ کیلئے بہت مختلف ہوں گے لیکن سیاسی تجربہ و تبصرہ نگاروں کی اس سوچ کو بھی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس نے غلط ثابت کر دکھایا ۔ پارلیمنٹ سرمائی اجلاس کے گزشتہ ہفتہ حکومت نے دستوری (129ویں ترمیم ) بل متعارف کروایا جس کا مقصد ملک میں ون نیشن ۔ ون الیکشن کو یقینی بنانا ہے ۔
ایک دستوری ترمیمی بل کی منظوری کیلئے ایوان میں موجود ارکان میں سے دو تہائی ارکان کی تائید و حمایت ضروری ہے جبکہ بل کی ناکامی کو یقینی بنانے کیلئے صرف 182 ارکان کی تائید درکار تھی ۔ آپ کو بتادیں کہ ایوان میں INDIA بلاک کی نمائندگی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 234 ہے ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس بل کو شکست کیوں دی جائے ؟
اس کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے پہلے دستور کی وہ دفعات (دفعہ 83( اور (دفعہ 172( کے تحت بالترتیب لوک سبھا اور اسمبلی کیلئے 5 سالہ معیاد کیلئے انتخابات ہونا ضروری ہے ۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو دستور کی بنیادی خاصیت ہے جبکہ پارلیمنٹ کو بنیادی خصوصیات میں ترمیم کا اختیار نہیں ہے ۔ مثال کے طورپر دستوری ترمیمی بل ایک عجیب و غریب تبدیلی کیلئے پیش کیا گیا جیسے کہ قانون ساز اسمبلیوں کا ایک وقت میں ایک ’’سال کی معیاد‘‘ کیلئے انتخاب عمل میں آئے گا ۔ اس طرح کی تجویز ؍ بل غیردستوری ہوگا کیونکہ یہ ترمیم انتخاب ایک طنز ہوگا اور قانون ساز اسمبلیاں ایک سرکس ہوں گے۔ اس طرح یہ شرط عائد کرنا کہ قانون ساز اسمبلیوں کی معیاد لوک سبھا کی معیاد کے ساتھ ہوگی ، قانون ساز اسمبلیوں اور ریاستی حکومتوں کو ایک مذاق بنادے گی ۔
دوسری اہم وجہہ یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت کی ایک مقررہ معیاد کا تصور نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کو ہر دن لوک سبھا کیلئے ذمہ دار اور جوابدہ ہونا ضروری ہے ۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو ہر دن ارکان پارلیمان کی اکثریت کی تائید حاصل ہونا ضروری ہے۔ صرف لئے کہ مرکرزی حکومت اپنی اکثریت کھوچکی ہے آخر اس کا خمیازہ ریاستی حکومتوں کو کیوں بھگتنا چاہئے اور ریاستی حکومتوں کو دستوری فرمانوں کے ذریعہ غیرمستحکم کیوں کرنا چاہئے ۔ مثال کے طورپر ایک قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے ایک ماہ بعد لوک سبھا تحلیل کردی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ریاستی اسمبلی کو تحلیل کیوں کرنا چاہئے ؟
اب تیسری وجہ کی طرف ہم جاتے ہیں ۔ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی جو ایک ریاستی حکومت چلاتی ہے ایک وزیراعظم کو شکست دینے ووٹ نہیں دے گی کیونکہ اگر وزیراعظم زوال سے دوچار ہوتے ہیں اور لوک سبھا تحلیل کردی جاتی ہے تو ایسی صورت میں تمام ریاستی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوجائیں گی ۔ چیف منسٹرس عبوری وزیراعظم کی تائید و حمایت کیلئے دوڑ پڑیں گے جس کا مقصد اپنی حکومتوں اور اسمبلیوں کو بچانا ہوگا ۔ چوتھی وجہہ کے بارے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں یہ پارلیمانی جمہوریت کا ایک غیرتحریری قاعدہ ہے کہ لوک سبھا کی تائید و حمایت جس وزیراعظم کو حاصل ہے وہ صدرجمہوریہ کو کسی بھی وقت پارلیمنٹ کی تحلیل کی سفارش کرسکتا ہے اور الیکشن کروانے پر زور بھی دے سکتا ہے ۔ ان حالات میں صدرجمہوریہ کیلئے اُس (وزیراعظم ) کا مشورہ قبول کرنا اور نئے انتخابات کروانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ریاستی حکومتوں کے مقدر کا فیصلہ ان حالات میں ریاستی اسمبلیوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوگا بلکہ وزیراعظم کے ہاتھوں میں ہوگا اور یہ ایک پارلیمانی جمہوریت میں مخالفت وفاقیت Theses ہے ۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ ایک امیدوار کو یہ پتہ ہے کہ اس کی معیاد غیریقینی ہے تو اُسے انتخابات میں مقابلہ کیوں کرنا چاہئے اور عوام کو بھی ایسے امیدوار کو ووٹ کیوں دینا چاہئے ۔ جس کے بارے میں وہ یہ نہیں جانتے کہ کب تک قانون ساز اُن کی نمائندگی کریں گے ۔ چھٹویں وجہ یہ ہے کہ اس بل کا حقیقی مقصد ریاستی حکومتوںکو کمزور کرتے ہوئے اُن سے نجات حاصل کرنا ہے ۔ خاص طورپر ایسی ریاستوں میں جہاں اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کو انتخابات میں کامیابی سے روکا ہے ۔ اس معاملہ میں ہم کیرالہ ، ٹاملناڈو ، آندھراپردیش ، پنجاب ، بہار اور مغربی بنگال کی مثال پیش کرسکتے ہیں ۔ بہرحال جو موجودہ اعداد و شمار ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ بل کو شکست ہوگی تو پھر یہ بل کیوں پیش کیا گیا ؟ کیا بی جے پی کے پاس اس بل کو منظور کروانے کی کوئی عیاری و مکاری کی حامل اسکیم ہے ؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا ۔