روش کمار
دنیا کی بڑی تیزی سے فروغ پاتی یا ابھرتی معیشتوں میں عالمی سطح پر ہندوستان کا 164 واں مقام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے 193 ویں ممالک میں ہم 164 ویں مقام پر ہے۔ اسی طرح کی معلومات پروفیسر کوشک باسو کے ٹوئٹ سے ملتی ہیں۔ پروفیسر باسو عالمی بینک کے سابق چیف اکنامسٹ ہیں اور کورنل یونیورسٹی امریکہ میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر باسو لکھتے ہیں کہ پانچ سال قبل ہندوستان سرفہرست معیشتوں کی صفِ اول میں شامل تھا آج ہمارے ملک کا مقام 164 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر باسو نے
Statistics times.com
کا ایک لنک دیا ہے۔ اس سائٹ پر جو چیزیں لکھی گئی ہیں اس میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار عالمی مالیاتی ادارے
(IMF)
سے حاصل کئے گئے ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2020 میں کس ملک کی قومی مجموعی پیداوار کا تخمینہ کیا ہوگا۔ دنیا میں ایسے صرف تین ممالک ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی قومی مجموعی پیداوار تین فیصد سے زائد ہوگی۔ ان ممالک میں سے ایک ہندوستان کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہے۔ گیانا اور جنوبی سوڈان بنگلہ دیش سے اوپر یا آگے ہیں۔ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 193 ویں معیشتوں میں سے 167 ملکوں کی معیشت منفی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی 79 فیصد معیشت منفی رہے گی۔ صرف 26 ممالک 2020 میں مثبت نمو حاصل کریں گے۔ ان میں سے 12 ملک ایشیا اور افریقہ سے رکھتے ہیں جبکہ تمام یوروپی اور امریکی ممالک کا توسیعی عمل رک جائے گا۔ جس طرح ہندوستانی عوام نے دم توڑتی معیشت کے دور میں مہنگائی یا افراط زر کو قبول کیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر روز قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام اسے بلاچوں و چراں قبول کرچکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام نے افراط زر پر حکومت کو نفسیاتی دباؤ سے آزاد کردیا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ لوگ بڑی خوشی سے 98 روپے تا 100 روپے فی لیٹر پٹرول خرید رہے ہیں۔ کاروبار میں گڑبڑ پائی جاتی ہے، تنخواہیں کم ہوگئی ہیں، آمدنی بھی بہت کم ہے اور کوئی روزگار بھی نہیں اس کے باوجود عوام جس طرح فی لیٹر پٹرول 98 تا 100 روپے خرید رہی ہے اس پر حیرت کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر تیل کی کمپنیاں چاہتی ہیں تو پھر وہ عوام کی اس بے حسی کا فائدہ اٹھاکر فی لیٹر پٹرول 200 روپے فروخت کرسکتی ہے۔ عوام اس قیمت کو بھی بخوشی قبول کرلیں گے۔ موجودہ حالات سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ مہنگائی اپوزیشن کے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ رسید کرنے کا کوئی بھی موقع کھونا نہیں چاہتی۔ اپوزیشن کو بھی معلوم ہے کہ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی عوام بھی مخالفت نہیں کررہے ہیں۔ تو ایسے میں وہ پوسٹر بینر لے کر کہاں جائے گی؟ کس کے لئے نعرہ بازی کرے گی؟ یا احتجاجی دھرنے منظم کرے گی؟ اگر اپوزیشن احتجاج بھی کرتی ہے یا حکومت کے خلاف ریالیاں نکالتی ہے اور نعرہ بلند کرتی ہے تو کوئی بھی اخبار ان کی خبروں کو شائع نہیں کرے گا۔ ویسے بھی گودی میڈیا نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ مہنگائی نامی مسئلہ کی موت ہوگئی ہے اور ہندوستان افراط زر اور بے روزگاری جیسے دو اہم ترین مسئلوں سے آزاد ہوگیا ہے۔ ایسے بیروزگار جو روزگار چاہتے ہیں انہیں صرف ایک منٹ میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور مذہب کو خطرہ میں بتاکر یا مذہب کے تحفظ سے متعلق بیان دے کر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جس سے بڑھ کر ہندوستانی نوجوانوں کو کوئی اور چیز نہیں چاہئے، روزگار بھی نہیں چاہئے، ان لوگوں کو تو صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک دوسرے مذہب سے نفرت کرنا اور دوسرے اپنے مذہب پر فخر کرنا۔ میرے خیال میں یہ دونوں چیزیں ہر بیروزگار کو تھمادی گئی ہیں۔ آج ہم ہندوستانی ایک تاریخی مرحلہ سے گذر رہے ہیں۔ عوام کو افراط زر اور بیروزگاری سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ سرکاری کمپنیوں کو فروخت کئے جانے سے متعلق فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بھکت حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ حکومت سرکاری اداروں کو فروخت کررہی ہے جس کے خطرناک مضمرات برآمد ہوں گے۔ صرف ان کمپنیوں کے ملازمین یہ کہتے ہیں کہ ہنوز ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کے خیال میں مودی جی وہی کرتے ہیں جو وہ سوچتے ہیں اور یہ صحیح ہے۔ اس لئے صحیح ہے کہ آج جو معیشت کی خراب حالت ہے وہ صرف اور صرف سوچنے اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ آج ہم پوری طرح ڈوبے ہوئے ہیں معاشی تباہی کو روکنے کوئی تالا نہیں لگایا گیا۔ ایسے مودی حکومت کی ہٹ دھرمی اور عوام کی بے حسی کی ستائش ہونی چاہئے۔