پروین کمال
یوروپ کی تاریخ میں 8 مئی 1945 بہت ہی خاص اور اہم دن مانا جاتا ہے کیونکہ اس دن طویل عرصہ تک جاری رہنے والی جنگ عظیم دوم کا پانچ سال آٹھ ماہ اور ساتھ دن بعد اختتام ہوا تھا اور نہ صرف یوروپ بلکہ پوری دنیا نے سکون کی سانس لی تھی۔ رواں سال 8 مئی کو جنگ کے 80 برس پورے ہونے کی خوشی میں پورے یوروپ میں تقریبات منائی گئیں۔ ان تقریبات میں خاص طور پر یہ محسوس کیا گیا کہ ماحول پر ایک عجیب سی سوگواری طاری تھی ۔ وہ خوبصورت فولادی نوجوان جنہوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں لیکن پیٹھ نہیں دکھائی اور ملک و قوم کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیا ۔ تاہم شکست ان کے حصہ میں آئی ۔ مگر ان کی قربانیاں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ ان نوجوانوں کو خراج عقیدت پش کرنے کیلئے جرمنی کے صدر مقام (برلن) اور مختلف مقامات پر تقاریب منائی گئیں ۔ سیاہ لباس میں ملبوس ارباب اقتدار گویا زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے نوجوانوں نے ملک کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ جب وہ خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے تو تب ان کے چہروں پر عجیب سی افسردگی چھائی ہوئی تھی ۔ ان سپاہیوں کی موت آج تک جرمن قوم کے دلوں میں تازہ ہے۔ ان فوجیوں کی مائیں اپنے بیٹیوں کا انتظار کرتے ہوئے زندگی کا آخری سفر طئے کرگئیں۔ دراصل دوسری جنگ عظیم ایک بہت بڑا قہر بن کر دنیا پر نازل ہوئی تھی جس کا ذمہ دار ہٹلر کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے لیکن برسوں بعد ہٹلر کے بارے میں کچھ انکشافات سامنے آئے ہیں۔ محققین نے انتہائی باریک بینی سے اس خون ریز جنگ کا جائزہ لیا ہے اور ان سچائیوں کو تحریروں میں لایا گیا ہے جس کی روداد کچھ یوں ہے دراصل (ڈینزگ) ایک بندرگاہ ہے جو پولینڈ کے شمال میں واقع ہے ۔ یہی وہ بندرگاہ ہے جو دوسری جنگ عظیم کا باعث بنی۔ یہ بندرگاہ کم و بیش ایک صدی سے زائد عرصہ تک جرمنی کے کنٹرول میں تھی اور یہاں کی آبادی میں زیادہ تر لوگ جرمن نژاد تھے ۔ معاہدہ کے مطابق اس علاقہ کو ’’فری سٹی‘‘ قرار دیکر ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ کے حوالے کر دیا گیا تھا لیکن اس پر پو لینڈ کا قبضہ رہا ۔ ادھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’’ڈینزگ‘‘ کے ’’سینیٹ‘‘ پر کئی سال سے ہٹلر کی نازی پارٹی کا قبضہ چلا آرہا تھا ۔ غرض اس بندرگاہ کے معاملے کو لے کر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا اور تعلقات کشیدہ ہونے لگے ۔ ہٹلر کا مطالبہ تھا کہ ڈینزگ سے جرمنی کا الحاق کردیا جائے لیکن صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ۔ تب ہٹلر کے پاس صرف ایک ہی حل تھا کہ پولینڈ پر حملہ آور ہوجائے۔ چنانچہ یکم ستمبر 1939 ء وہ یوم سیاہ تھا جس دن جرمنی کے تربیتی جہاز نے پولینڈ کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی تھی ۔ یہ دوسری جنگ عظیم کی ابتداء تھی ، مگر ایک بات یہاں قابل غور ہے کہ حملہ کرنے سے پہلے ہٹلر نے پولینڈ کو اس معاملہ کا کوئی پرامن حل نکالنے کی پیشکش کی تھی ۔ اگر وہ جنگ پر آمادہ ہوتا تو حل تلاش کرنے کی پیشکش نہ کرتا۔ اس نے اس بات کا بھی یقین دلایا تھا کہ جو معاہدات ہمارے ساتھ کئے گئے تھے اور اس کے بعد ناانصافیاں کی گئیں اس کا ازالہ اگر کردیا جائے تو میں آئندہ کوئی اور مطالبہ نہیں کروں گا لیکن اس بات پر اتفاق نہ ہوسکا اور پھر ہوا یوں کہ ہٹلر نے فوجیں پولینڈ میں داخل کردیں اور اس کے اگلے تین دن بعد برطامنیہ اور فرانس نے بھی جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا پھر جنگ میں دوسرے ممالک بھی شامل ہونے لگے اور جنگ انتہائی تباہ کن حالات تک پہنچ گئی لیکن یہاں بھی اس نے احتیاطی تدابیر سے کام لیا جو ہر دو کیلئے فائدہ مند تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد ہٹلر بار بار اپنی فوجوں کو حکم دیتا تھا کہ وہ جہاں تک پہنچے ہیں، وہیں رکے رہیں اور مزید کوئی کارروائی نہ کریں۔ حالانکہ اس کے فوجی دستے اتنے طاقتور تھے کہ وہ برطانوی فوجوں کو سمندر میں ڈھکیل دیتے یا پھر انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیتے لیکن اس نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ اس بات کو لے کر اس کی فوج کا کمانڈر ہٹلر کی برطانیہ کے متعلق پالیسی سے سخت نارا ض ہوگیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے حکم کو نظر انداز کردے لیکن اس کے جواب میں ہٹلر کی طرف سے اس کو سخت احکام ملے جس کو کمانڈر نے پورا کرتے ہوئے تین دن تک ایک ہی مقام پر ٹینک کھڑے رکھے لیکن پھر اچانک حکم ملا کہ آگے بڑھو کیونکہ جرمنی کے شہروں میں بھی وحشیانہ بمباری شروع ہوگئی تھی ۔ اسی لئے جرمن کی طرف سے بھی سخت جوابی کارروائی ہونے لگی جس سے پورا یوروپ لرز اٹھا۔ دراصل ہٹلر جنگ کے حق میں نہیں تھا ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ جنگ بین الاقوامی بینکرز کی سازشوں کا نتیجہ تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ یوروپی اقوام پر جنگ مسلط کر کے اپنے ذاتی مفادات پورے کریں۔ غرض ، لمبے عرصہ تک جاری رہنے والی اس جنگ نے بہت تباہی مچائی ۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ جرمن میں افرادی قوت ختم ہوچکی تھی ۔ نوجوان جنگ کی نذر ہوچکے تھے ۔ ایسے میں دوسرے ملکوں سے معاہدوں پر افراد کو بلایا گیا جس سے معیشت کو کچھ سہارا ملا۔ بارودی حملوں کی وجہ سے عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہوگئیں۔ کئی شہروں کی موت، غذائی اجناس کی عدم دستیابی، بم کے اثرات سے پانی تک استعمال کے قابل نہیں رہا تھا ۔ غرض وقت ا پنی رفتار سے چلتا رہا۔ حالات بدلتے گئے ۔ جرمنی اب ایک شاندار جگمگاتا ملک ہے ۔ آج کوئی سیاہ جرمنی آتا ہے تو وہ یقین نہیں کرتا کہ یہاں کبھی کھنڈروں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں لیکن ایک بات جو کبھی بھلائی نہ یں جاسکتی ۔ وہ ہے ان نوجوانوں کی قربانیاں جو ہمیشہ انسانوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی جنگ کے بعد سب کچھ تو مل گیا مگر نہیں ملا تو ان ماؤں کو ان کا اپنا بیٹا جو کبھی لوٹ کر نہیں آیا اور ان کی آنکھیں انتظار میں ہی پتھراگئیں۔ کیا آج بھی دنیا کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ جنگیں اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کا لمبا سلسلہ لے کر آتی ہیں اور سب کچھ تہس نہس ہوکر رہ جاتا ہے ۔