محمد ریاض احمد
جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں صرف مرد سیاحوں پر دہشت گردوں کی فائرنگ اور اس کے نتیجہ میں 26 بے قصور انسانوں کی ہلاکت نے پلوامہ اور پٹھان کورٹ دہشت گردانہ حملوں کی طرح سوال کھڑا کردیا ہے کہ آخر اس اندوہناک اور اذہان و قلوب کو دہلا دینے والے واقعہ کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ اس کے پیچھے کن عناصر کی سوچ کارفرما ہے؟ اور بے قصور انسانوں کے قتل سے کس کو فائدہ ہوگا اور کون اس واقعہ کا ناجائز فائدہ اُٹھائے گا؟ یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ کیا پلوامہ دہشت گردانہ حملہ کی طرح اس سانحہ کے ذمہ دار بھی نہیں پکڑے جائیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات پانے کے لئے ہمیں وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، مشیر قومی سلامتی اجیت دوول، وزیر اقلیتی و پارلیمانی اُمور کرن رجیجو اور معتمد خارجہ وکرم مسری کے بیانات اور ان کے دعوؤں پر غور کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی اپوزیشن قائدین کے بیانات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ پہلگام واقعہ کو لے کر گودی میڈیا جس نے ہمیشہ ہندو مسلم کی بنیاد پر ملک میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کی کوشش کی پھر سے ملک اور عوام کو نقصان پہنچانے کے کام میں مصروف ہوگیا ہے۔ اس کے اینکرس مختلف پروگرامس میں چیخ چیخ کر یہ اعلان کررہے ہیں کہ پہلگام میں دہشت گردوں نے سیاحوں کا مذہب پوچھ کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارا جبکہ میڈیا کے اس شرپسند بلکہ ملک دشمن گوشہ نے 30 سالہ نوجوان سید عادل حسین شاہ کو بالکل فراموش کردیا جو سیاحوں کو گھڑ سواری کروایا کرتا تھا۔ عادل اپنے خاندان کا واحد کمانے والا تھا اور اس نے سیاحوں کو دہشت گردوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان گنوادی۔ اس کے نماز جنازہ میں خود چیف منسٹر عمر عبداللہ نے شرکت کرتے ہوئے عادل کو ایک بہادر کشمیری نوجوان قرار دیا جس نے دوسروں کو بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی لیکن افسوس کہ گودی میڈیا نے سید عادل حسین شاہ اور ان کی قربانی کو بالکل نظرانداز کردیا۔ آپ کو بتادیں کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا جب ہمارے وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ دوسری طرف امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اپنی اہلیہ اوشا وینس اور 3 بچوں کے ساتھ ہندوستان کے چار روزہ دورے پر ہیں۔ تیسری طرف ملک بھر میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کے زبردست احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال جیسے ہی پہلگام میں دہشت گردوں کی کارروائی میں 26 سیاحوں کی ہلاکتوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے وزیراعظم اپنا دورہ سعودی عرب مختصر کرکے واپس ہوجاتے ہیں۔ ایرپورٹ پر ہی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر، مشیر قومی سلامتی اجیت دوول اور معتمد خارجہ وکرم مسری کے ساتھ جائزہ اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ شام کو سی سی ایس (سلامتی سے متعلق کابینی کمیٹی) اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو اس بدترین دہشت گردانہ حملہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اس کے خلاف 5 بڑے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ واضح کردیا کہ 1960 ء کے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا گیا ہے اور ہندوستان میں موجود پاکستانیوں کو اندرون 48 گھنٹے ہندوستان چھوڑ دینے کا حکم بھی دے دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں موجود ہندوستانی شہری یکم مئی تک اٹاری چیک پوسٹ کے راستے واپس آسکتے ہیں۔ مودی حکومت نے دفتر پاکستانی ہائی کمشنر میں تعینات دفاعی فوجی بحری اور فضائی مشیران کو ناپسندیدہ قرار دیا اور دونوں ملکوں نے اپنے دفاتر ہائی کمیشن کے ارکان عملہ کو 55 سے گھٹاکر 30 کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ جواب میں پاکستان نے کہاکہ اگر پانی کا بہاؤ روکا گیا تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ ساتھ ہی تمام ہندوستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ مودی جی نے انگریزی میں کچھ یوں کہا ’’جنھوں نے بھی اس بہیمانہ کارروائی کا ارتکاب کیا انھیں انصاف کا سامنا کرنا ہوگا، انھیں بخشا نہیں جائے گا، ان کا شیطانی منصوبہ کبھی کامیاب نہ ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمارا عزم ناقابل تسخیر ہے اور وہ مزید مضبوط ہوگا‘‘۔ وزیرداخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی سخت الفاظ پر مبنی بیان میں پاکستان کو دہشت گردی کا منبع و مرکز قرار دیا اور کہاکہ پاکستان ہندوستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ مودی جی سے لے کر امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور بی جے پی قائدین جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے برعکس شیوسینا ادھو ٹھاکرے کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت کا کہنا ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کے لئے مودی اور امیت شاہ ذمہ دار ہیں۔ جس طرح ملک میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلایا گیا، جس طرح مودی اور امیت شاہ اپوزیشن کا صفایا، اپوزیشن قائدین کو گرفتار کروانے، اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو توڑنے میں مصروف ہیں، ایسے میں بلا کسی جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلگام میں جو کچھ ہوا اس کے لئے یہ دونوں ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہاکہ امیت شاہ وزیرداخلہ کی حیثیت سے ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ 26 لوگوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں، انھیں فوری استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ سنجے راوت نے پرزور انداز میں یہ بھی کہاکہ یہ دہشت گرد حملہ بی جے پی کی زہریلی سیاست کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم زہریلی سیاست کی بات کرتے ہیں تو اس سیاست کے ذریعہ ملک میں دس گیارہ برسوں سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گاؤ رکھشا کے نام پر اب تک درجنوں مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا۔ ملک میں شیرخوار لڑکیوں سے لے کر 75 سالہ خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں، ہندو بیواؤں کا بُرا حال ہے۔ ان سنگین مسائل پر توجہ دینے اور ملک میں انسانیت کو بچانے کے بجائے مودی حکومت میں مذہب پر مبنی مسلم مخالف شہریت ترمیمی قانون / این آر سی منظور کیا گیا۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کرکے ریاست کے ٹکڑے کردیئے گئے۔ طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا قانون منظور کیا گیا۔ اب مسلمانوں کو ایک نیا زخم دینے کی خاطر وقف ترمیمی قانون 2025 منظور کروایا گیا جس سے مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا اظہار ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے خلاف قوانین بنانا ہی مودی حکومت کا مقصد ہے؟ ایک طرف فرقہ پرست درندے انسانیت کو تار تار کررہے ہیں۔ دوسری طرف تلوے چاٹو میڈیا مودی حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی کی شکل میں پیش کررہا ہے۔ اس میں مودی جی سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کہ آپ نے پہلگام دہشت گردانہ حملہ پر جو کل جماعتی اجلاس منعقد ہوا اس میں شرکت کی بجائے بہار چلے گئے جہاں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مودی حکومت ملک کو درپیش اہم مسائل پر توجہ دینے کے بجائے صرف مسلمانوں سے ہمدردی کے بہانہ ان کے خلاف اقدامات کررہی ہے اور ان کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے میں مودی حکومت کے اقدامات کا اہم کردار ہے۔ یہ الزام اپوزیشن قائدین بار بار عائد کررہے ہیں۔ شائد اس وجہ سے سنجے راوت نے پہلگام دہشت گرد واقعہ کے لئے مودی ۔ شاہ کی جوڑی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جب بھی کوئی امریکی لیڈر ہندوستان کا دورہ کرتا ہے تو ہمارے ملک میں دہشت گرد حملے اور فرقہ وارانہ فسادات کے بدترین واقعات کیوں پیش آتے ہیں۔ سال 2020 میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے ہندوستان کا دورہ کیا، کشمیر میں 36 سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ ٹرمپ ہندوستان آئے تو دہلی فسادات میں درجنوں لوگ مارے گئے۔ اب امریکی نائب صدر ڈی جے وینس کے دورہ ہند کے موقع پر پہلگام میں دہشت گردوں نے انسانیت کو شرمسار کردیا۔ اس حملہ کے خلاف کشمیریوں نے وادی میں تقریباً 35 سال بعد بند منایا۔ ان لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ دہشت گردی نے صرف انسانوں کا ہی قتل نہیں کیا بلکہ کشمیر کے سیاحتی شعبہ اور کشمیریوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ واضح رہے کہ آؤٹ لک بزنس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2017 ء میں 1.62 کروڑ سیاحوں نے وادی کا دورہ کیا جو 2023 ء میں بڑھ کر 2.12 کروڑ اور 2024 ء میں 2.36 کروڑ ہوگئی۔ بیرونی سیاحوں کی تعداد 2017 ء میں 57920 سے بڑھ کر 2024 ء میں 65452 ہوگئی۔ بہرحال مودی جی جب سے اقتدار میں آئے ملک میں بے شمار دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ نکسلائٹس کے ساتھ جھڑپوں کے واقعات پیش آئے اور فرقہ وارانہ فسادات نے بیرون ملک ہمارے عظیم ملک کی شبیہ متاثر کی۔ آپ کو بتادیں کہ 12 مئی 2014 ء کو آسام میں تشدد پھوٹ پرا۔ 85 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ بے شمار زخمی ہوئے۔ 28 ڈسمبر 2014 ء کو بنگلور میں بم دھماکہ میں ایک ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔ 20 مارچ 2015 ء کو جموں میں حملہ ہوا 6 ہلاک 10 زخمی ہوئے۔ 4-9 جون منی پور میں گھات لگاکر حملہ کیا گیا 176 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ 27 جولائی 2015 ء کو گرداس پور میں حملہ ہوا 10 ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ 2 جنوری 2016 ء کو پٹھان کورٹ میں دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ 7 ہلاکتیں اور بے شمار زخمی ہوئے۔ 25 جون 2016 ء کو پمپور میں حملہ 8 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔ 5 اگست 2016 ء کو کوکراجھار میں شوٹنگ 14 ہلاک اور 15 زخمی، 18 ستمبر 2016 ء اری حملہ میں 23 ہلاک 8 زخمی ہوئے۔ 3 اکٹوبر 2016 ء بارہمولہ حملہ میں 5 ہلاکتیں ہوئی۔ 6 اکٹوبر 2016 ء ہندواڑہ کے راشٹریہ رائفلس کیمپ میں جملہ 27 نومبر 2016 ء کو جموں و کشمیر کے ناگروٹا فوجی اڈہ پر حملہ 10 ہلاک۔ اسی طرح 7 مارچ 2017 ء سے لے کر 22 اپریل 2025 ء تک بے شمار حملوں میں 232 سے زائد ہلاکتیں اور 200 زخمی ہوئے۔