رویش کمار
بریانی تو سبھی کھاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر نان ویجٹیرین بھی ویجٹیرین بن جاتے ہیں۔ بریانی کھانے میں مذہب کا کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ تاہم، دہلی کے اسمبلی انتخابات نے پھر ایک بریانی کو متنازع کردیا ہے۔ سیاسی قائدین اپنی تقریروں میں عوام کو ایسا غیبی شیشہ فراہم کررہے ہیں کہ وہ بریانی کو صرف ایک مخصوص کمیونٹی سے جوڑنے لگیں۔ ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے بعد واحد گرفتار ملزم قصاب کے تعلق سے بریانی کا ذکر ہوتا رہا۔ ایسا کہا گیا کہ حکومت جیل میں اسے بریانی کھلا رہی ہے۔ جب یہ معاملہ بڑھنے لگا تو اس کیس کے پبلک پراسکیوٹر اُجول نکم نے کہا کہ قصاب نے کبھی بریانی کا تقاضہ نہیں کیا اور نہ حکومت نے اسے بریانی فراہم کی ہے۔ وکیل کا بیان جھوٹ تھا۔ قصاب نے مٹن بریانی کی خواہش کی تھی۔ وکیل نکم کا بیان کئی جگہ شائع ہوا۔ اس طرح بریانی کھلانا علامتی اقدام بن گیا۔ اسے دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔ 2014ء کے انتخابات میں دہشت گرد کو بریانی کھلانے کو خوب اچھالا گیا۔ اب بریانی کی انتخابات میں واپسی ہوئی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ کانگریس حکومت نے دہشت گردوں کو بریانی نہیں کھلائی، پھر بھی یہ جھوٹ بار بار دہرایا جاتا ہے۔
دہشت گرد قصاب کو 21 نومبر 2012ء کو پھانسی دی گئی۔ عام آدمی پارٹی کی تشکیل 2 اکٹوبر 2012ء کو ہوئی۔ اروند کجریوال کی حکومت ایک سال بعد بنی، جو کچھ عرصہ چلی، پھر کس دہشت گرد کو کجریوال بریانی کھلائے؟ 2013-14ء سے وکیل اُجول نکم کے جھوٹ کے سبب سیاست میں بریانی استعارہ بن چکا ہے۔ بریانی کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سہیل ہاشمی نے کہا ہے، دہلی میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی بریانی بناتے ہیں اور اسے ذریعہ معاش بھی بناتے ہیں۔ بریانی اکثر Zomato کی ویب سائٹ پر رجحان بنتی ہے۔ کس طرح آسانی سے ایسی ڈش کو جو ہزارہا لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے، ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے کیلئے دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے، وہ بھی ایک جھوٹ کے ساتھ۔ حیدرآباد میں کلیانی کو غریبوں کی بریانی سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں مختلف ناموں سے اور مختلف نوعیت کی بریانی بنتی ہے۔ لہٰذا، بریانی کو آزاد رکھنا چاہئے، بالخصوص ایسے وقت جب واضح ہے کہ دہشت گرد کو بریانی نہیں کھلائی گئی اور وہ جھوٹ تھا۔
ایک پاکستانی وزیر نے کجریوال کے حق میں بیان جاری کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ چیف منسٹر دہلی ہی شاہین باغ کے لوگوں کو بریانی فراہم کرا سکتے ہیں۔ اُس کی فکرمندی صرف شاہین باغ تک محدود ہے۔ شاہین باغ نے اپنی ایسی چھاپ ڈالی ہے کہ لوگ انھیں دیکھ کر مطمئن ہوتے ہیں کہ دہشت گرد نہیں بلکہ ہندوستان کے عوام احتجاج کررہے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شہریوں کے ایک گوشہ نے اس انداز میں مظاہرہ کیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں پولیس نے اس طرح کے حقائق پر بات نہیں کی، نہ ہی عدالت نے شاہین باغ کے احتجاج کو برخاست کرانے کا فیصلہ سنایا۔ پولیس کی مرضی پر چھوڑتے ہوئے عدالت نے کہا کہ احتجاجیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے طور پر فیصلہ کریں۔
ایسا نہیں کہ ملک میں صرف شاہین باغ دہلی میں احتجاج ہورہا ہے، اور مسئلہ صرف شہریت ترمیمی قانون کا ہے۔ اگست 2019ء میں اُس وقت کے گورنر جموں و کشمیر نے کہا تھا کہ 50,000 نوجوانوں کو اندرون تین ماہ نوکریاں دی جائیں گی اور یہ ابھی تک ریاست کا سب سے بڑا رکروٹمنٹ مرحلہ رہے گا۔ آج پانچ ماہ گزرنے کے بعد تمام اخبارات اور ویب سائٹس اور چیانلوں کی شہ سرخیوں پر نظر ڈالئے۔ آپ دیکھیں گے کہ جھوٹ باتوں کا طوفان برپا ہے۔ ستیہ پال ملک اب گوا کے گورنر بن چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے نوجوان 50,000 رکروٹمنٹس کے منتظر ہیں۔
بہار کے داروغہ امتحان دینے والے کہتے ہیں کہ امتحان رگنگ کا شکار ہوچکا۔ اس کی سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات ہونا چاہئے۔ امتحان لکھنے والے اب پٹنہ میں ریلی نکال رہے ہیں۔ چھ لاکھ امیدواروں نے زائد از 2400 جائیدادوں کیلئے امتحان میں شرکت کی۔ 50,072 اسٹوڈنٹس کو مین اگزامنیشن کیلئے منتخب کیا گیا۔ یہ امتحان اپریل میں منعقد کیا جائے گا۔ اسٹوڈنٹس کا کہنا ہے اس امتحان کے فارم کا افشاء ہوچکا ہے۔ متعلقہ کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ احتجاجی اسٹوڈنٹس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور پانی کی بوچھاڑ سے بھی ’استقبال‘ کیا گیا۔ کچھ اسی طرح شاہین باغ بھی حکومت کیلئے صرف شاہین باغ نہیں بلکہ وہاں دہشت گردوں کی موجودگی کے دعوے کئے جارہے ہیں۔
ہم نے ابھی روزگار کی بات نہیں کی کیونکہ پرائم ٹائم جاب سیریز کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے اور اب وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی دہلی کی انتخابی تقاریر میں روزگار کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ ان کی تقریر کا بڑا حصہ نہیں، لیکن پھر بھی کچھ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر تمام قائدین اس مسئلہ پر بولنے لگیں تو انتخابی زبان بدل جائے گی۔ یہ نہ صرف دہلی بلکہ بہار، یو پی اور مدھیہ پردیش کے نوجوانوں کیلئے بھی اچھا رہے گا۔
دہلی یونیورسٹی کے ٹیچرز 64 یوم دھرنا دیتے رہے۔ ان کا واحد مطالبہ اڈہاک ٹیچروں کو مستقل کیا جائے۔ یہ مرکزی حکومت کے تحت آتا ہے۔ 21 مارچ 2017ء کو اُس وقت کے وزیر ایچ آر ڈی پرکاش جاوڈیکر نے کہا تھا کہ 9,000 اڈہاک ٹیچروں کو اندرون ایک سال دہلی یونیورسٹی میں باضابطہ ملازمت دے دی جائے گی۔ ابھی تک کچھ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ جولائی 2019ء میں نئے وزیر فروغ انسانی وسائل نشانک نے کہا تھا کہ 7,000 جائیدادیں سنٹرل یونیورسٹی میں جنگی خطوط پر پُر کی جائیں گی۔
سیاست عجیب چیز ہے۔ جب امیت شاہ سے پوچھا جاتا ہے کہ ہر سال ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کا کیا ہوا، وہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔ کانگریس نے کچھ ریسرچ کی تو وہ ضرور امیت شاہ کو گھیر سکتی ہے۔ پرینکا گاندھی بھی تھوڑی ریسرچ کرسکتی تھیں تاکہ ریلوے میں جائیدادوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک سوال اٹھا سکے۔ گورکھپور ڈیویژن میں اسٹوڈنٹس دھرنے پر ہیں۔ اگر پرینکا گاندھی نے امیت شاہ سے سوال کیا تو احتجاجی اسٹوڈنٹس کا بھلا ہوسکتا ہے اور امیت شاہ مدھیہ پردیش کے تعلق سے پرینکا گاندھی کو چیلنج کریں تو وہاں سپاہیوں کو فائدہ ہوگا۔ ریلوے کے این ٹی پی سی اگزام فارمس داخل کئے ایک سال ہوچکا ہے۔
اگر سنجے سنگھ نے بھی کچھ ریسرچ کرلی ہوتی تو وہ نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے آٹھ ہزار ٹیچروں کا مسئلہ اٹھا سکتے تھے جن کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ بی جے پی کو اس کارپوریشن میں اکثریت حاصل ہے۔ شہر دہلی میں ٹیچروں کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور شاہین باغ کی خواتین کو دہشت گرد قرار دینے کی سیاست چلی جارہی ہے۔ دہلی میں یہ کیوں مسئلہ نہیں ہے کہ میونسپل کارپوریشن کے ٹیچروں کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ کئی سو ٹیچرز اسی میونسپل کارپوریشن میں عارضی حیثیت سے کام بھی کررہے ہیں۔
عارضی جابس کا مسئلہ بہار میں بھی ہے۔ ہزاروں صفائی کرمچاری اپنی نوکریوں کو مستقل بنانے کیلئے ہڑتال کررہے ہیں۔ دہلی اور بہار میں عارضی جابس کا مسئلہ آگے بڑھتا ہے تو پٹنہ کے صفائی کرمچاریوں کو مستقبل نوکری کا موقع حاصل ہوگا۔ منیش کمار کا کہنا ہے کہ پٹنہ میں دس سال سے صفائی کرمچاری مستقل نوکری کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ پٹنہ میں تقریباً 3,000 صفائی کرمچاری ہیں۔ انھوں نے دو روز ہڑتال بھی کی۔
سیاست کو روزگار سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو ہندو۔ مسلم جھگڑے میں جھونکا جارہا ہے۔ لیکن اس فریب میں نہ رہیں کہ فرقہ پرستی پر روزگار کا مسئلہ غالب آجائے گا۔ فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد مختلف ہے۔ اس کا روزگار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
[email protected]