بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے امریکی صدر کے دورے کے دوران فساد کی منصوبہ بندی :دہلی پولیس
نئی دہلی: 30 اکتوبر (ایجنسیز)دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 2020 کا دہلی فساد ایک ’’حکومت کی تبدیلی‘‘کی سازش تھی۔ پولیس نے عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ اور دہلی دنگے کے دیگر ملزمان کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے۔دہلی پولیس کے مطابق اس سازش کے تحت پورے ملک میں تشدد پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس میں اتر پردیش، آسام، مغربی بنگال، کیرالہ اور کرناٹک جیسے ریاستیں بھی شامل تھیں۔ پولیس نے کہا کہ عمر خالد اور شرجیل امام اس کے سازشی تھے، جنہوں نے لوگوں کو بھڑکانے کا کام کیا۔فروری 2020 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دہلی میں احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جس میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دہلی پولیس کی طرف سے سولیسیٹر جنرل تشار مہتا، وکیل راجت نائر اور دھروپ پانڈے پیش ہوئے۔حلف نامے میں کہا گیا کہ 2020 کے فسادکی منصوبہ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران کی گئی تاکہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی جا سکے، ملک کی ساکھ خراب ہو اور دنیا کو دکھایا جا سکے کہ سی اے اے کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس معاملے میں تمام ملزمان پر غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت الزامات ہیں۔ پولیس نے کہا کہ فروری 2020 میں دہلی میں تشدد اچانک نہیں پھوٹا بلکہ بھارت کے اندرونی ہم آہنگی اور بین الاقوامی وقار کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ احتجاج سی اے اے کے خلاف نہیں بلکہ ہتھیاروں کے ذریعہ ہندوستان کی سالمیت اور خودمختاری پر حملے کی سازش تھا۔انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس نے حلف نامے میں کہا کہ تحقیق کاروں کو عینی شاہدین کے بیانات، دستاویزات اور تکنیکی شواہد ملے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ بندی شدہ سازش تھی، جس کی ٹائمنگ پہلے سے طے تھی۔پولیس نے کہا کہ حملے کو جان بوجھ کر ٹرمپ کے بھارت دورے کے دوران منصوبہ بنایا گیا تاکہ سی اے اے بین الاقوامی سطح پر موضوع بحث بنے اور بھارت کی ساکھ متاثر ہو۔ دہلی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر اور گلفشاں فاطمہ جان بوجھ کر سماعت ٹال رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان بار بار جھوٹی درخواستیں دائر کر رہے ہیں تاکہ کیس کی سماعت ملتوی ہو اور یہ عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ اب 31 اکتوبر کو پولیس کے اس حلف نامے پر سماعت کرے گا۔
