نئی دہلی ، 12 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام) گزشتہ دنوں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے فرانس جاکر وہاں کی کمپنی ڈسالٹ کے ساتھ طے شدہ کنٹراکٹ کے مطابق پہلا رافیل لڑاکا جٹ طیارہ وصول کیا اور اس موقع پر انھوں نے شستر پوجا کے نام پر کچھ ایسی ڈرامہ بازی کی کہ میڈیا اور بالخصوص ’گودی میڈیا‘ نے اپنی ساری توجہ اسی پر مبذول کردی لیکن حیرت ہے کہ اپوزیشن کی توجہ منتشر ہوگئی۔ چند ماہ قبل راہول گاندھی نے بڑے زور و شور سے رافیل اسکام کو جنرل الیکشن 2019 کا اہم موضوع بنایا تھا۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے مودی حکومت سے سوال کیا تھا کہ رافیل کی قیمت میں زائد از 500 کروڑ روپئے سے یکایک زائد از 1000 کروڑ روپئے اضافہ کیونکر ہوگیا؟ یعنی ایک طیارہ ہندوستان کو 1600 کروڑ روپئے سے زیادہ قیمت پر کیوں حاصل ہورہا ہے؟ مودی حکومت کے پاس ان سوالات کا نہ تب کوئی جواب تھا، نہ اب کوئی ہے۔ مودی حکومت کی پہلی میعاد میں راہول اور کئی اپوزیشن قائدین پھر بھی دم خم دکھاتے رہے۔ انھیں کئی ریاستی انتخابات اور ضمنی چناو میں کامیابیاں حاصل بھی ہوئیں، جیسے راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڈیشہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش، اترپردیش وغیرہ۔ لیکن اب دوسری میعاد میں مودی کے ساتھ امیت شاہ حکومت میں شامل ہوگئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ مودی۔ شاہ کی حکمران جوڑی سے سارا اپوزیشن خائف اور خوفزدہ ہے۔ کسی کو کچھ ٹھیک ٹھیک سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے مرکزی حکومت پارلیمنٹ کے اندرون سے لے کر بیرون تک من مانی کررہی ہے۔ راجیہ سبھا میں مصنوعی اکثریت کے ساتھ من چاہے قانون بنائے گئے ہیں۔ راہول گاندھی، پی چدمبرم، شیوکمار سے لے کر چھوٹے لیڈروں کو تک عدالتی مقدمات میں مصروف کردیا گیا ہے۔مذکورہ بالا سیاسی چالوں کے درمیان مودی حکومت کی طرف سے راجناتھ سنگھ پیرس گئے اور پہلا رافیل طیارہ وصول کیا اور اسے ایسا کارنامہ بنا کر پیش کررہے ہیں جیسے یہ خالص بی جے پی حکومت کا آئیڈیا ہے۔ رافیل معاملت تو منموہن سنگھ حکومت کے دور میں شروع ہوئی اور لگ بھگ 500 کروڑ روپئے فی طیارہ پر مذاکرات ہورہے تھے کہ مرکزی اقتدار عوام نے بی جے پی کو سونپ دیا۔ وہاں سے یکایک اس معاملت میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ قیمت میں چند کروڑ کا نہیں بلکہ 1000 کروڑ روپئے کا فرق آگیا۔ اس طیارہ کی فرانس سے ٹکنالوجی کی منتقلی پر ملک میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ (HAL) کو سونپی جانی تھی۔ اس کی جگہ اچانک انیل امبانی کی نوارد کمپنی منظر پر آگئی جسے پہلے کبھی کسی طیارہ کا پرزہ تک نہیں بنایا تھا۔ کانگریس زیرقیادت اپوزیشن نے بجاطور پر جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے ذریعے ساری رافیل ڈیل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مسئلے پر کئی بار پارلیمانی کارروائی میں خلل بھی پڑتا رہا۔ جوں توں کرکے مودی حکومت کی پہلی میعاد گزر گئی۔ لیکن جس طرح ’حیران کن‘ مگر ’مشکوک‘ طور پر مزید اکثریت کے ساتھ مودی حکومت دوبارہ برسراقتدار آئی ہے، اس پر یوں لگتا ہے کہ ساری اپوزیشن کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سب سے پہلے راہول نے کانگریس کی صدارت چھوڑ دی جو بی جے پی کی ایک اہم کامیابی کے مترادف ہے۔ پھر اہم اپوزیشن لیڈر چندرا بابو نائیڈو کو آندھرا پردیش میں، اترپردیش میں سماجوادی پارٹی، آر جے ڈی کو بہار اور شرد پوار کی این سی پی کو مہاراشٹرا میں بری طرح شکست ہوگئی جس نے حزب اختلاف کے یقینا حوصلے پست کردیئے۔ پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ یہ سیاسی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں۔ 400 سے زیادہ لوک سبھا نشستیں جیتنے والی کانگریس آج لگ بھگ 50 کی عددی طاقت پر سمٹ سکتی ہے تو وہ آگے بڑھ کر کہیں درمیان میں بھی آسکتی ہے۔ اسی طرح دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا معاملہ ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس سے لے کر تمام اپوزیشن پارٹیوں تک کوئی بھی حکومت کے خلاف ٹھوس حکمت عملی سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ ایک ماہ قبل صدر کانگریس سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ اے سی کمروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا سے سیاست نہیں چلائی جاسکتی، ہمیں سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ تاہم، ابھی تک عملی طور پر کچھ نہیں ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ کانگریس قائدین کو قانونی مقدمات میں الجھا دینا ہے۔ اگر ایسا رہا تو مقدمات کی کمی نہیں او راس اعتبار سے مودی اور امیت شاہ وغیرہ مرتے دم تک اپنے ’احمقانہ‘ فیصلوں کے ساتھ ’عوام پر مسلط‘ رہیں گے۔ راہول کو امیت شاہ اور دیگر کی ہتک کے مقدمات میں ایک ریاست سے دیگر ریاست کو گھومنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ کانگریس اتنی احمق کب سے ہوگئی کہ وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور نہ جانے کتنے ہی قائدین کی مودی اور دیگر بی جے پی و آر ایس ایس قائدین نے دل کھول کر ہتک کی۔ کانگریس سے کسی نے کیوں ہتک عزت کا کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا؟