راہول نے بی جے پی۔ آر ایس ایس کی پول کھولدی

   

سنجے کے جھا
کانگریس لیڈراور وائیناڈ کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کا دورہ امریکہ غیر معمولی طور پر کامیاب رہا، یہ دعویٰ کانگریس قائدین اور کارکن کررہے ہیں ۔ ان کے دعوؤں میں سچائی بھی ہے کیونکہ راہول گاندھی نے امریکہ میں ہندوستانی آئین پرستی کو برقرار رکھنے کی ممکنہ کوشش کی اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ امریکی دورہ میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے حکمراں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے نظریہ یکسانیت Idea of Uniformity کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی پر ان کے دستور مخالف نظریات کیلئے جم کر تنقید کی۔ راہول گاندھی کے مطابق ہندوستان مختلف تہذیبوں و ثقافت، زبانوں ، روایات اور کئی ایک مذاہب کی نمائندگی کرنے والوں کا ملک ہے اور کسی بھی حالت میں نفرت ، غصہ و برہمی کے ساتھ ساتھ عداوت کو اقدار کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ راہول گاندھی نے امریکہ کی یونیورسٹیز میں جہاں طلبہ سے خطاب کیا ان کے سوالات کے جوابات دیئے وہیں دانشوروں و مفکرین اور ہندوستانی تارکین وطن سے بھی خطاب کیا۔ راہول گاندھی نے بڑی باریک بینی سے ہندوستان میں بحران کی طرف عالمی توجہ مبذول کروائی اور اس امر پر اصرار کیا کہ ان کی کامیابی معاصر ہندوستانی سیاست میں محبت، احترام اور عاجزی کو شامل کرنے میں مضمر ہے۔ راہول گاندھی کے مطابق نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنا اور محبت و احترام اور عاجزی کے جذبہ کو آگے بڑھانا ان کیلئے ایک اہم کام تھا ۔ انہوں نے طلبہ اور ہندوستانی تارکین وطن کو یہ بھی بتایا کہ قائد اپوزیشن (LOP) کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں نبھاتے بھی ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ (USA) میں کانگریس لیڈر نے جمہوریت کے معنی و مقاصد کی وضاحت کی اور یہ بھی بتایا کہ آخر کیوں ملک کی اپوزیشن جماعتیں دستور ہند کو درپیش خطرات پر غور کرتی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے بھارت جوڑو یاترا نکالنے یا شروع کرنے کے پیچھے کارفرما وجوہات سے بھی طلبہ و تارکین وطن ہندوستانیوں کو واقف کروایا۔ ماضی میں بھی انہوں نے اس بارے میں کئی مرتبہ بات کی ہے۔
راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بار بار یہ کہنے پر کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے، ایک طرح سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسی معاملہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کوکھلے پن کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ۔ ان کے خیال میں مودی سماج کو درپیش سلگتے مسائل حل کرنے اور جمہوریت کو لاحق خطرات سے بچانے کی بجائے صرف بیان بازی کے ذریعہ ا س بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مودی صرف بڑی بڑی باتیں کرتے ہوئے عملی اقدامات نہیں کرتے ہیں ‘انہیں صرف بلند بانگ دعوے کرنا آتا ہے جبکہ وہ ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔ آر ایس ایس ۔ بی جے پی کے یونیفارمیٹی یا یکسانیت سے متعلق آئیڈیا کو مسترد کرتے ہوئے کانگریس لیڈر نے ببانگ دہل یہ کہا کہ ہندوستان مختلف تہذیوں کا مرکز ہے اور یہاں کسی بھی حالت میں نفرت و غصہ اور برہمی کو اقدار کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ راہول گاندھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نظریاتی اور فلسفیانہ جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے جبکہ معاشرہ کے ساتھ ساتھ ملک و ریاست کیلئے آر ایس ایس۔ بی جے پی کا ویژن ہمارے ملک کی جمہوریت کے جوہر اور اس کی خوبیوں کے برعکس و خلاف ہے۔ آپ کو بتادیں کہ راہول گاندھی کے دورہ امریکہ اور وہاں کی جامعات میں ان کے خطابات کو لیکر ہندوستان میں بی جے پی کافی چیخ و پکار کررہی ہے۔ بی جے پی قائدین خاص کر وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے راہول گاندھی پر یہ الزام عائد کیاہے کہ انہوں نے بیرونی ملکوں میں ہندوستان کی شبیہہ متاثر کرنا اپنی عادت بنالی ہے اور مودی حکومت کوبدنام کرنا اور ملک کی امیج متاثر کرنا ان کا وطیرہ بن گیا ہے۔ راہول گاندھی نے امریکی یونیورسٹی میں دراصل نریندر مودی کی سیاست پر بالراست تنقید کی یہاں تک کہ وزیر اعظم نے گذشتہ عام انتخابات میں فرقہ وارانہ طور پر زہرآلود مہم چلائی اور جان بوجھ کر کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا تاکہ عام انتخابات کو بھی مذہبی رنگ دیا جائے اور اس کے ذریعہ نام نہاد و خود ساختہ مہم کو کامیاب بنایا جائے جس کے ذریعہ صرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
عام انتخابات2024 میں مودی اور بی جے پی کے لیڈروں نے کس طرح لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرکے رکھ دیا تھا اس بارے میں آپ اور ہم سب کچھ جانتے ہیں اس کے برعکس راہول گاندھی نے سارے ملک کو محبت کا پیغام دیا، اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کی مذمت کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ہندوستانی سیاست کو ایک لمس مسیحائی کا موقف حاصل ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہی اپوزیشن جماعتوں نے ایوان اقتدار کی میزوں پر عاجزی و انکساری، احترام اور محبت ان میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہیں یعنی راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کا جو نعرہ تھا اسے حقیقت میں تبدیل کیا ۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت میں اپوزیشن کی آواز بند کرنے کے لئے کئے گئے غیر جمہوری اور غیر دستوری اقدامات و فیصلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے حکومت نے مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیئے یہاں تک کہ جمہوری اداروں بشمول عدلیہ ایک نارمل سیاسی مقابلہ کو یقینی بنانے آزادانہ طور پر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں انہوں نے خود کیلئے ایک نیا کردار ایجاد کیا جو نارمل پولٹیکل الیکشن سے بالاتر ہوا، اور وہیں سے بھارت جوڑو یاترا کا آئیڈیا نکل آیا۔
راہول گاندھی نے امریکہ میں طلبہ و تارکین وطن ہندوستانیوں اور دانشوروں اور مفکرین کو یہ بھی بتایا کہ 4000 کلو میٹر پیدل چلنا مشکل اور ایک بڑا چیلنج تھا تاہم وہ لوگوں سے راست رابطہ کے نتیجہ میں آسان ہوگیا۔ وہ یہ بھی کہتے نظر آئے کہ خود کو ایک دانشور، ایک مفکر ، ایک عالم کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے علم کا دکھاوا ایک ایسے لیڈر کیلئے ایک فرضی یا جعلی مشق ہے جو محض غالب قومی جذبات کی ترسیلی پٹی کے طور پر کام کرتا ہے۔ راہول گاندھی نے ایک اچھی بات یہ بتائی کہ ان کے ذریعہ بھارت جوڑو یاترا نے عوام سے بات کی اور ملک و قوم کو یہ بتایا کہ ایک حقیقی جمہوریت میں رائے اور خیالات کیلئے ایک شکل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں بھارت جوڑو یاترا سے ایک نیا راہول گاندھی منظر عام پر آیا۔ یاترا کے دوران ہی انہوں نے اپنی تقاریر میں یہ بات متعد مرتبہ دہرائی تھی کہ آپ جس راہول گاندھی کو جانتے تھے وہ مرچکا ہے جس نے خود کو فنا کرنے کے فلسفیانہ احساس کو واضح کیا لیکن آج کی دنیا میں ایک سیاستداں اپنی کامیابی کا تجزیہ کامیابی و شکست کے حوالے سے نہیں بلکہ معاشرے اور سیاست کو حساس بنانے کے حوالے سے کرتا ہے اور وہ بھی گہرے قومی بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے اس نے دنیا کو جو کچھ بتایا وہ یہ ہے کہ ہندوستان کو سب سے پہلے خود کو تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام اور سیاستدانوں میں جو خوف تھا وزیر اعظم اور حکومت کا خوف‘ وہ خوف دور ہورہا ہے اور ایسا لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے شروع ہوا ۔ یہ راہول گاندھی یا کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی نہیں بلکہ عوام کی کامیابی ہے اور عوام کو ہی اس کامیابی کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اب وزیر اعظم اور ان کی حکومت میں کوئی دَم خم نہیں رہا، ان کی طاقت میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ حکمراں جماعت کی عجیب و غریب حرکتوں و اقدامات اور اکھاڑ پچھاڑ سے مساوات، انصاف اور احتساب کے آئینی اُصولوں کو نقصان پہنچا اور ان اُصولوں کو پامال کیا گیا۔ جہاں تک احترام کا سوال ہے یہ ہمارے دستور کے اُصول ، مساوات سے نکلا ہے اور ہمارے دستور کے ذریعہ ہی ہم نفرت پر محبت کو غالب اور فتح یاب کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس آر ایس ایس، بی جے پی میں تنوع اور تکثیریت ( کثرت میں وحدت ) کیلئے بہت کم جگہ ہے۔ ان کا تصور تہذیب و ثقافت اقلیتوں کے خلاف زہریلا پروپگنڈہ ہے خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اور اس معاملہ میں آر ایس ایس۔ بی جے پی فراخدل سیکولر ہندوؤں کو بھی نہیں بخشتے۔ بی جے پی نے جس طرح دوسرے ملکوں میں فسطائی طاقتوں نے کام کیا ہے اسی طرح اپنی اکریتی سیاسی پراجکٹ کی نمائندگی کی اور یہ سب کچھ قوم پرستی کا مکوٹھا پہن کر کیاہے۔