پاکستان کے علاوہ چین، ازبکستان، تاجکستان کے جنگجو بھی شامل، صدر زیلنسکی کا ’ایکس‘ پر دعویٰ
کیف ۔ 5 اگست (ایجنسیز) یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ شمال مشرقی یوکرین میں روسی افواج کے ساتھ لڑنے والوں میں پاکستان، چین اور افریقی ممالک کے جنگجو بھی شامل ہیں۔صدر زیلنسکی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا کہ ہم نے محاذ پر موجود کمانڈرز سے ووفچانسک کے دفاع اور جنگ کی صورتحال پر بات کی۔ ہمارے سپاہیوں نے اطلاع دی ہے کہ اس محاذ پر چین، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور کچھ افریقی ممالک کے کرائے کے جنگجو شامل ہیں۔ ہم اس کا جواب دیں گے۔”دوسری جانب پاکستان نے یوکرین میں جاری تنازعہ میں پاکستانی شہریوں کی مبینہ شرکت سے متعلق الزامات کو بے بنیاد، من گھڑت اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی سطح پر کوئی صداقت نہیں پائی جاتی۔ترجمان کے مطابق اب تک یوکرینی حکام نے نہ تو حکومت پاکستان سے باضابطہ طور پر کوئی رابطہ کیا ہے اور نہ ہی ان دعووں کے حق میں کوئی قابلِ تصدیق یا ٹھوس شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔ پاکستان اس معاملے پر یوکرین سے باضابطہ رابطہ قائم کرے گا اور اس نوعیت کے الزامات کی وضاحت طلب کی جائے گی۔دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان یوکرین تنازعہ کے پرامن اور سفارتی حل پر یقین رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔2023 میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے دو امریکی پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ 364 ملین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا، جس کے ذریعے ہتھیار مبینہ طور پر یوکرین پہنچائے گئے۔ تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ، سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور پاکستان میں روسی سفیر کی جانب سے ان الزامات کو مختلف مواقع پر مسترد کیا جا چکا ہے۔صدر زیلنسکی اس سے قبل بھی روس پر چینی جنگجو بھرتی کرنے کا الزام لگا چکے ہیں، جسے چین نے مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح شمالی کوریا پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے ہزاروں فوجی روس کے کرْسک علاقے میں بھیجے ہیں۔