بھاری قرض کے سبب مطالبات کی یکسوئی ممکن نہیں، اپوزیشن کی سازش کا شکار نہ ہوں، ریاست کی صورتحال پر ریونت ریڈی کی وضاحت
حیدرآباد 5 مئی (سیاست نیوز) چیف منسٹر ریونت ریڈی نے سرکاری ملازمین اور آر ٹی سی ملازمین کی جانب سے ہڑتال کے اعلانات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ خانگی ٹی وی چیانل کی جانب سے پولیس ملازمین کو ایوارڈس کی پیشکشی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف منسٹر نے سوال کیاکہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہوں کی ادائیگی پر کیا یہ ہڑتال کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر نے واضح کیاکہ ریاست کا معاشی موقف بہتر نہیں ہے اور حکومت آمدنی کے مطابق خرچ کرنے کے موقف میں نہیں۔ چیف منسٹر نے کہاکہ ملازمین کی تنظیمیں ہڑتال کا اعلان کررہی ہیں، آپ کی جدوجہد کیا تلنگانہ عوام کے خلاف ہے۔ کیا حکومت ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہیں ادا نہیں کررہی ہے؟ بعض سیاسی پارٹیاں حکومت کے خلاف الزام تراشی کررہی ہیں۔ مفت برقی سربراہی کے نام پر برقی کے بھاری بقایہ جات چھوڑ کر جانے والے حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔ حکومت کا مطلب صرف میں تنہا نہیں ہیں، ہم تمام ملکر حکومت ہیں۔ چیف منسٹر نے کہاکہ معاشی مشکلات کے وقت حکومت کا تعاون کرنے کے بجائے ملازمین کی تنظیمیں جدوجہد اور ہڑتال کی دھمکی دے رہی ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ عوام کی مشکلات میں ساتھ کھڑے رہنے کی ذمہ داری سرکاری ملازمین کی ہے، اگر آپ کے مسائل ہوں تو حکومت سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنا بعض سیاسی پارٹیوں کی سازش کا حصہ ہے اور ملازمین کی تنظیموں کو اِس سازش کا شکار نہیں بننا چاہئے۔ چیف منسٹر نے کہاکہ نئے مطالبات کے ساتھ دھرنا کرنے کی صورت میں موجودہ ادارہ تباہی کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر سرکاری ملازمین اپنی ذمہ داری محسوس نہ کریں تو عوام بھی معاف نہیں کریں گے۔ اُنھوں نے کہاکہ مزید قرض حاصل کرنے سے ریاست کا معاشی موقف اور بھی بگڑ سکتا ہے۔ چیف منسٹر نے کہاکہ حکومت ایک خاندان کی طرح ہے اور خاندان کی عزت کو بازار میں نیلام مت کیجئے۔ فی الوقت ضرورت جدوجہد کی نتیجہ بلکہ حکومت سے تعاون کرنے کی ہے۔ تلنگانہ کو مزید قرض میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے حکومت سے تعاون کیجئے۔ تلنگانہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہم تمام کی ذمہ داری ہے۔ چیف منسٹر نے سوال کیاکہ سرکاری ملازمین آخر کس کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ اُن کی جدوجہد کہیں عوام کے خلاف تو نہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ تلنگانہ کی ماہانہ آمدنی 18500 کروڑ ہے اور حکومت ملازمین کے تمام مطالبات کی یکسوئی کے موقف میں نہیں۔ اُنھوں نے سوال کیاکہ کیا پٹرول کو 100 روپئے سے بڑھاکر 200 روپئے کردیا جائے یا پھر 30 روپئے کیلو چاول کو 60 روپئے کیا جائے؟ اُنھوں نے ملازمین کی تنظیموں سے سوال کیاکہ بونس اور تنخواہوں میں اضافہ کس طرح کیا جائے، حکومت کی رہنمائی کریں۔ 11 فیصد شرح سود پر بھاری قرض حاصل کرتے ہوئے کے سی آر نے ریاست کو مقروض کردیا اور خود فارم ہاؤز میں آرام کررہے ہیں۔ چیف منسٹر نے ملازمین کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ مطالبات کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے حکومت سے مذاکرات کریں۔ اُنھوں نے کہاکہ گزشتہ 10 برسوں میں سرکاری ملازمین کو پہلی تاریخ کو تنخواہ نہیں دی گئی۔ کانگریس حکومت نے 16 ماہ میں 1.58 لاکھ کروڑ قرض حاصل کیا اور قرض بشمول سود جملہ 1.52 لاکھ کروڑ ادا کئے گئے۔ ڈسمبر 2023 ء سے 31 مارچ 2025 ء تک یہ ادائیگی کی گئی۔ چیف منسٹر نے کہاکہ حکومت کی آمدنی میں سے ایک روپیہ بھی عوام کی بھلائی اور سرکاری ملازمین کے لئے خرچ نہیں کی گئی۔ کے سی آر حکومت نے 8.29 لاکھ کروڑ کے بقایہ جات رکھے ہیں۔ ہر ماہ 7 ہزار کروڑ قرض اور سود کی شکل میں ادا کئے جارہے ہیں۔ چیف منسٹر نے ریمارک کیاکہ ریاست کی معاشی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اور قرض کے لئے بینک جائیں تو چوروں کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ بعض افراد صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ حکومت پر بھروسہ کرنے والوں کو ہم دھوکہ دینا نہیں چاہتے۔1