ریپ کی متاثرہ کی شادی کے بعد سپریم کورٹ نے مجرم کی سزا منسوخ کر دی

   

نئی دہلی:/31 اکٹوبر (ایجنسیز) سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلے میں اپنی آئینی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کی سزا منسوخ کر دی جو POCSO ایکٹ کے تحت نابالغ لڑکی سے جنسی زیادتی کے جرم میں سزا یافتہ تھا۔جسٹس دیپنکر دتہ اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے آرٹیکل 142 کے تحت “مکمل انصاف’’ کے لیے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں “محبت، ہوس نہیں’’ کارفرما تھی۔عدالت نے کہا کہ اپیل کے دوران متاثرہ لڑکی اور مجرم، جو اب بالغ ہو چکے ہیں، نے مئی 2021 میں شادی کر لی اور اب ایک سالہ بیٹے کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ متاثرہ لڑکی نے بھی حلف نامہ داخل کیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک پْرسکون اور معمول کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔بنچ نے مشاہدہ کیا کہ “ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جرم صرف فرد کے خلاف نہیں بلکہ پورے سماج کے خلاف ہوتا ہے، تاہم انصاف کے تقاضے بعض اوقات عملی حالات کے مطابق ایک نرمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ اگرچہ POCSO ایکٹ کے تحت ایسے جرائم کو سنگین سمجھا جاتا ہے، مگر اس معاملے میں جرم ہوس کا نہیں بلکہ محبت کا نتیجہ تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ “اگر سزا برقرار رکھی گئی تو اس سے متاثرہ، اس کے بچے اور خاندان کے مستقبل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
اس لیے انصاف کے تقاضوں کے تحت قانون کو نرمی دکھانی ہوگی۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ کسی نظیر کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ صرف ان “منفرد حالات’’ کے تحت دیا گیا ہے جو اس مقدمے میں پیش آئے۔ساتھ ہی عدالت نے ملزم کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیوی اور بچے کا پورے احترام کے ساتھ خیال رکھے اور کبھی انہیں نظرانداز نہ کرے، بصورت دیگر اس کے لیے نتائج خوشگوار نہیں ہوں گے۔عدالت کے اس فیصلے کو سوشل اور قانونی حلقوں میں ایک اہم انسانی نقطہ نظر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انصاف ہمیشہ محض قانون کے الفاظ میں نہیں بلکہ انسانی رشتوں کے احترام میں بھی موجود ہوتا ہے۔