ڈاکٹر محمد سراج الرحمن
بلا شبہ قابل مبارکباد ہے وہ امت مسلمہ جنہوں نے رب العالمین کے احکامات کی تابعداری کی۔ رمضان المبارک کے قیمتی اوقات نماز باجماعت ، تراویح ، تکبیر ، تحلیل ، تلاوت قرآن میں گزارا لیکن کتنے لوگ ، کتنے فیصد امت نے احکامات کی تکمیل کی۔ کتنے بندگان خدا، وقت رمضان رحمت خداوندی سے مستفید ہوئے ۔ اگرچیکہ ہم تفصیلی جائزہ لینا نہیں چاہتے ، ممکن بھی نہیں لیکن بازاروں کی گھما گھمی ، راستوں میں نت نئے قسم کے کھانے ، تجارتی مراکز ، سڑکوں پر دکھائی دینے والا اژدھام ، شادی خانے ، فنکشن ہالس، شاپنگ سنٹرس کی سجاوٹ ، حتیٰ کہ آخری دہے کی طاقت راتوں میں کھانے پینے کی دکانیں ، ہوٹلیں ، اِٹنگ پوئنٹس کی کثرت اور ان میں موجود مرد و عورتوں کا ہجوم ، کہیں رحمتِ رمضان کے نام سے لگائے گئے شور شرابہ والے کاروبار نے نہ صرف ہم کو پشیمان کیا بلکہ برادران وطن کے چبھتے سوالات کا جواب دینے سے عاجز کیا ۔ جب وہ ہم سے پوچھ بیٹھے کے کیا رمضان اللہ کا مہینہ عبادت کے لئے ہے یا فوڈ فیسٹول کا ہے ۔ جن ایام میں مساجد ، عبادت گزاروں کی کثرت سے تنگ دامنی کا شکوہ کرتی تھی اور ہاں کیا چند سال پہلے تک ایسے ہی ہوا کرتا تھا ؟ لیکن ہماری آنکھوں نے جو چند سال پہلے تک رات بھر آخری عشرہ میں کم از کم طاق راتوں میں مساجد میں رب العالمین کو راضی کرنے کے آبدیدہ ، اجتماعی آنسو بہانے والی تراویح ، تہجد کو دیکھا تھا ، وہی آنکھیں آج وہی متبرک با برکت راتوں میں بازاروں کو نمائش گاہ کی طرح دنیا داری ، کھانا ، کھیلنا ، کودنا ، مرد و عورتوں کو ہجوم میں رب العالمین کی رحمت برستی راتوں سے محروم ہوتے دیکھا تو سینہ ھونک اٹھتا ہے ۔
ایک طرف عالم اسلام کی کسمپرسی ، ہمارے دستر سجے ہوئے یتیم ، یسیر ، بیوہ ، مسکین کھانے کو ترس رہے ہیں، بلبلا رہے ہیں۔ کسی کو افراد خاندان علاج معالجہ کو ترس رہے تو کسی کے عزیز و اقارب بیرون ملک پریشان ہیں جس کا ہمیں کچھ احساس بھی نہیں ۔
دوسری طرف دشمن اسلام اور اس کے ساتھی اسرائیل اور اس کے تمام مسلم ، غیر مسلم ہواری ممالک جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود عین سحر کے وقت بمباری اور زمینی حملوں کے ذریعہ سے معصوم فلسطینی ، نو نہال ، اکثریت خواتین ، مرد حضرات پر بزدلانہ حملے کر رہا ہے ۔ فلسطینی بے یار و مددگار بلبلاتے نعرے تکبرے کا نعرہ لگاتے ، حالات نماز میں شہید کئے جارہے ہیں ۔ خان یونس غزہ کا علاقہ پھر ایک بار بمباری کا شکار ہورہا ہے ۔ ملبہ میں سینکڑوں شہداء کی نعشیں ، حتیٰ کے عیدالفطر کے دن بھی درندہ صفت وقت کا فرعون اور اس کی فوج بمباری کر رہی ، کوئی بھی ملک چاہے وہ مسلم ملک ہو یا غیر مسلم اس کے سفاکانہ حملے کے خلاف لب کشائی تک نہیں کر رہی، افسوس ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن اپنے آپ میں اتنے مگن کہ ان کے غم کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ لکہ سر پر ٹوپی اور پردہ نشین خواتین بھی عید کو شام اسرائیل نوجواز ، ہوٹلوں میں کولڈ ڈرنکس ، جس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی ، سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
دوسرا رخ خود اپنے ہندوستان میں خاص کر شمالی ہند میں قبل رمضان اور ماہ رمضان میں دانستہ طور پر منصوبہ بند طر یقے سے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکاکہ کے گنگا جمنی تہذیب کو داغدار بنایا گیا ۔ مکانات، دکانیں ، گاڑ یاں چلائی گئیں ۔ مابعد فساد جس میں نہ صرف مالی بلکہ جانی نقصان بھی اقلیتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ رمضان میں گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے ، گھروں کو بلا وجہ منہدم کیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں راتو ں کے اندھیرے میں گھروں میں گھس کر معصوم بچوں کو ماؤں کے سامنے گھسیٹنے ہوئے گرفتار کیا گیا ۔ چھتوں پر ، سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر سخت سزاؤں کی وارننگ دی گئی ۔ جبکہ آزاد ہند کے قیام سے یہ سلسلہ پرامن طر یقہ عبادات ادا کی جارہی ہیں۔ جیلوں کی حالت تو اور بھی ابتر ، ناقابل بیان ہے ۔ عیدیں وہاں کی اقلیتیں ایسی کسمپرسی میں گزاریں کہ ان کے لخت جگر جیل کی سلاخوں میں رہے ۔ کیا فلسطینی ہو یا شمالی ہند یا دنیا کے کوئی بھی حصہ میں ظلم و بربریت کا شکار امت مسلمہ کا درد کا کبھی ہم نے احساس پیدا کیا ۔ کیا یہ حمیت ایمانی نہیں کہ ہم ان مظلوم مسلمانوں کے درد و غم کا احساس جگائیں ۔ کیا یہ مجمع نے جو رمضان المبارک کے متبرک راتوں میں بازاروں میں لعو لعب کھانے پینے ، گل چھرے اڑاتے گھوم رہا ہے کیا کبھی ان کرب ، آہ بکا کر رہے مسلمانوں کا درد محسوس کیا ۔ ہم میں کتنے ہیں جن میں ان بے یار مددگاروں کی غم کا حصہ بننے کم از کم مت برک راتوں میں بیجا لعو لعب سے دور رہ کر دعاؤں کے ذریعہ ان پر مدد الٰہی کی التجا کی ہے ۔
کیا فرمان پیغمبر اسلام ﷺ نہیں ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ۔ یہ عمارت کی اینٹ کی طرح ہے ، جس طرح ایک اینٹ دوسرے اینٹ سے مل کر عمارت کو مضبوط کرتی ہے ، اس کا نقصان عمارت کا نقصان ہوتا۔ یعنی ساری امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ہے ، جسد واحد ہے ، جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ، نقصان ضرب پہنچتی ہے تو اس کا اثر جسم کے دوسرے کو بھی (یعنی درد کا ا حساس ہوتا ہے ) اسی طرح امت مسلم کو دنیا کے کوئی حصہ ، علاقہ میں نقصان ، تکلیف پہنچتی ہے و اس کا ا حساس ہر کلمہ گو کو ہوتا ہے ۔ ہو نا چاہئے ، قابل مبارکباد ہے ۔ وہ امت کا طبقہ اس کا احساس کرتا ہو۔ لعو لعب ، کھیل کود، ناچ گانے ، خرافات سے دور رہ کر نیم شبی عبادات میں لوازمات کا تک پرہیز کیا اور بارگاہ خدا وندی میں منہمک رہتے ہوئے مشغول ، عبادت کا اپنایا اور گڑگڑاکر اس کسم پرسی میں مبتلا امت کا غم سمجھا ۔ اس کے لئے آنسو بہاکر دعا کی اور عطیات ، صدقات ، زکوۃ، خیرات کے ذ ریعہ ان کی جتنی بھی ممکن ہو مدد کی ۔ قابل مبارکباد ہے ، وہ تنظیمیں جو ناحق گرفتار ، مقید قیدیوں کو رہائی کے برجستہ ، بروقت اقدامات کے ہیں ، کئے جارہے ہیں ۔ مالداروں کو سمجھ اور مال کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے رمضان المبارک میں ہم سے سرزد ہونے والی غلطیوں، کوتاہیوں کو معاف کرے ۔ مشن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قران کے پیغام کو عام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ علامہ اقبال کا یہ کہنا ؎
جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
امراء نشے دولت میں ہلے غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غرباء کے دم سے