’’سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی ‘‘

   

Ferty9 Clinic

محمد نصیرالدین

’’ہمچومن دیگر نیست‘‘ فارسی زبان کی یہ کہاوت لگتا ہے فی زمانہ ملت اِسلامیہ پر صادق آتی ہے جہاں یہ بات باعث مسرت و اطمینان ہے کہ مختلف تنظیموں، اِداروں اور جماعتوں نے دین و شریعت کی اشاعت و ترویج اور ملت اسلامیہ کو تعلیمی و معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے کئی ایک قابل قدر کارنامے انجام دیئے ہیں، وہیں یہ تلخ حقیقت بھی پائی جاتی ہے کہ ملک میں ایک بڑی تعداد میں پائی جانے والی اُمت بے حیثیت ہوچکی ہے، نہ حکمراں جماعتوں کے پاس ان کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی سرکاری اداروں میں ان کی کوئی قابل ذکر حصہ داری پائی جاتی ہے کیوں کہ ایک کلمہ کی حامل یہ اُمت، ملک و ملت کو درپیش اُمور و مسائل میں متحدہ موقف اور رائے کے اظہار سے قاصر ہے۔ ملت کے قائدین اور قابل قدر علماء کرام ایک آواز نہیں بن سکے۔ چنانچہ یہ قابل احترام ہستیاں مختلف مسائل میں بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، انتشار فکر و عمل کا علانیہ مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے زبان و عمل کی بے احتیاطی کی وجہ سے شریعت کی حفاظت اور ملت کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ہو یا بابری مسجد کی بازیابی کی بات ہو، بیرون ملک شہریوں کا مسئلہ ہو یا کشمیر میں ظلم و زیادتی کے مسائل، اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کی منصوبہ بندی ہو یا ماب لنچنگ، فرضی انکاؤنٹر اور دیگر مقامی مساجد کے تحفظ کے اُمور ہوں ملت کے علماء و قائدین نہ صرف اپنی رائے اور نقطہ نظر کا برسر عام اظہار کرتے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کی رائے کو مہمل اور غلط ٹہرانے سے بھی نہیں چوکتے جس کے نتیجہ میں حکومت بڑی عیاری اور مکاری کے ساتھ اپنے خفیہ ایجنڈہ کے لئے معاون بننے والے نقطہ نظر کو اُچک لیتی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ رائے تمام مسلمانوں کی رائے ہے چنانچہ طلاق ثلاثہ پر چند ناعاقبت اندیش اصحاب کی بے عملی نے سارے ملک میں ایک شرعی مسئلہ کو مذاق کا موضوع بنادیا۔ بدقسمتی سے ملت کے علماء و قائدین حکمراں جماعت کی چال بازیوں کا بڑی آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ ’’حکمت‘‘ کو ’’مومن کی متاع‘‘ قرار دیا گیا ہے لیکن پتہ نہیں قرآن و حدیث کے گن گانے والے قرآن و حدیث کے لئے مرمٹنے کا دعویٰ کرنے والے اور قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت میں مصروف قائدین و علماء کرام قرآن و حدیث کو سمجھنے، سمجھانے اور عمل پیرا ہونے سے کیوں قاصر ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ دین و شریعت کے اُمور میں ملت ایک زبان نہیں ہوتی، ملکی و ملی مسائل کے حل کیلئے متحدہ آواز بلند نہیں کرتی۔ تعلیم معاش وقف اور دیگر مسائل میں متفقہ رائے کیوں نہیں رکھتی؟ اَسلاف کی زندگیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شریعت کی حفاظت اور ظلم و زیادتی کے خلاف جان و مال کے نذرانے پیش کئے لیکن فی زمانہ یہ کیسے علماء ہیں جو ظلم و بربریت کے خلاف آواز اُٹھانے کے بجائے حکومت کی تائید و توصیف میں مصروف ہیں، ملک کے باہر جاکر حکومت کے اقدامات کی صفائی پیش کرتے ہیں، انہیں ملک کی سلامتی و اتحاد کی فکر تو کھائے جارہی ہے لیکن 80 لاکھ توحید پرستوں کی قید و بند سے انہیں کوئی سروکار نہیں، 10 لاکھ فوجیوں کے محاصرہ اور ظلم و زیادتیوں کی داستانوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، معصوم بچوں کی بلبلاہٹ، ضعیفوں کی آہ و زاری، مریضوں کی کسمپرسی اور ماؤں اور بہنوں کی بے حرمتی انہیں متاثر نہیں کرسکی۔ دوسری طرف نعروں اور جذبات کے بل پر سیاست کرنے والی قیادت کے سورما آنے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں حکمراں جماعت کو کامیابی دلانے کیلئے پھر سے نکل پڑے ہیں، ملک کی ایک مخصوص جماعت کے سکیولرازم کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے آخر انہیں فاشسٹ اور فرقہ پرست جماعت کو کامیاب کرانے سے کیوں دلچسپی ہے؟ اسی طرح ریاست میں آلیر انکاؤنٹر کے شہید، مسجد یکخانہ و سیکریٹریٹ کی مساجد کروڑہا روپئے مالیت کی اوقافی جائیدادیں آواز دے رہی ہیں کہ کہاں ہیں وہ قائدین ملت اور علماء جنہوں نے ایک مخصوص جماعت کی الیکشن میں پرجوش تائید کی اور اس کی کامیابی کا سہرا بھی اپنے سَر باندھا لیکن اب ان امور سے آنکھیں موند لئے ہیں اور مختلف مسائل میں حکمراں جماعت کی جانب سے مرکزی حکومت کے فیصلوں کی تائید پر چپ بیٹھے ہیں، کیا قیادت و سیادت اسی کا نام ہے؟ ملت کے رہنماؤں کا یہی طرز عمل ہوتا ہے؟ اور مخلص و بے باک قیادت اسی کا نام ہے؟

عالم اسلام کے معروف مفکر اور جید عالم دین علامہ یوسف القرضاوی نے مسلمانوں کی اس حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اُمت مسلمہ اپنی ذات اور اپنے حقیقی پیغام سے باخبر ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے دوست و دشمن میں تمیز نہیں کر پارہی ہے اور جو کچھ سازشیں رات کی تاریکی میں ان کے خلاف کی جارہی ہیں، وہ جو میٹھا زہر چاندی کے اوراق میں لپیٹ کر اسے پیش کیا جارہا ہے اور تخریب کاری کی جن چیزوں کو جاذب نظر صورتوں اور دلکش عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، انہیں وہ پہچان نہیں پارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کفر کو آزادی، فسق و فجور کو آرٹ، بے راہ روی کو ترقی اور سراب کو پانی سمجھتی ہے۔ دوسری بڑی مشکل جس سے اُمت مسلمہ دوچار ہے، وہ آپس کی دُوری ہے جو علاقائی، قومی، لسانی اور غیروں کے طریقہ کار کی پیروی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے اُمت اللہ کے راستہ سے ہٹ گئی ہے، اس کے علاوہ حق کے مقابلے میں خود پرستی، اللہ کی خوشنودی کے مقابلہ میں وقتی و فوری منفعت اور شخصی مفادات کے لئے اُمت مسلمہ کے مصالح کی قربانی یہ سب اللہ کے راستہ سے ہٹ جانے کے محرکات ہیں۔ پھر اس کے علاوہ تمام مسلم ممالک میں حکام اور عوام کے مابین ایک خلیج حائل ہے، عوام اپنی فطرت، تاریخ اور واقفیت کے اعتبار سے اسلام کے ساتھ ہوتے ہیں اور حکام خاص نشوونما، ساخت و پرداخت، وفاداری اور مصلحتوں کی وجہ سے اسلام دشمن کیمپ میں ہوتے ہیں، اگرچہ وہ لوگ اسلام کو ناپسند نہیں کرتے، لیکن انہیں ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کا پھر سے بول بالا نہ ہوجائے اور اِسلامی تعلیمات کی حکمرانی نہ ہوجائے، اس وجہ سے وہ لوگ ایک طرف ہیں اور عوام دوسری طرف گویا یہ دو متوازی خطوط ہیں پھر اس کے علاوہ عوام اور دانشور طبقہ کے درمیان بھی ایک خلیج حائل ہے۔ عامتہ الناس مجموعی طور پر دینی مزاج رکھتے ہیں، لیکن دانشور طبقہ استعمار کی ثقافتی یلغار سے متاثر ہوکر صحیح بنیادوں سے ہٹ گیا ہے۔ دین و شریعت اور اُمت ِمسلمہ سے متعلق غلط مفاہیم ان کے ذہنوں پر راسخ ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آئیڈیالوجی اور طریقہ کار کے طور پر ’’لادینیت‘‘ پر ایمان رکھتے ہیں اور دین اسلام کو فقط بندے اور رب کا شخصی تعلق سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ گوارا نہیں کہ اسلام پوری زندگی کی قیادت کرے اور سماج میں اسلامی شریعت کو جگہ دی جائے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ مسجدوں میں نماز اور وعظ و نصیحت کی جائے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر دینی گفتگو کی جائے۔ مدرسوں میں دین کی حصہ داری پر اکتفا کیا جائے۔ رسائل و جرائد میں کچھ دینی کالم مخصوص کردیئے جائیں اور اس کے لئے یہ لوگ چندہ بھی دیتے ہیں اور احسان بھی جتاتے ہیں، لیکن سوال اس بات کا ہو کہ دین اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر اپنایا جائے تو یہ ایک بار نہیں ہزار بار ’’نہ‘‘ کہیں گے‘‘۔ اتحاد و اتفاق کوئی بازاری چیز نہیں کہ اسے خریدا جاسکے۔ اس کے لئے سب سے اہم اور پہلی چیز درکار ہے، وہ ’’اخلاص‘‘ ہے کہ ہر اتحاد کے داعی کو اس سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کی مطلب براری، مادی فوائد، دنیاوی چمک دمک، عہدہ اور منصب کا لالچ، اُمید اور اپنی اَنا کو تج دے کر اسلام و مسلمانوں کے مفادات کے لئے و نیز محض رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے نقطہ نظر سے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ دوسری چیز جو اتحاد و اتفاق کیلئے ضروری ہے، وہ باہمی رواداری اور احترام کا سلوک ہے کہ کوئی جماعت، ادارہ اور تنظیم صرف خود کو اہم موثر اور ملت کا صحیح نمائندہ نہ سمجھے بلکہ تمام جماعتوں، تنظیموں ، اداروں اور دیگر افراد کو بھی اتنا ہی اہم مفید اور ملت کا نمائندہ تسلیم کرے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، سب کی مشترکہ غوروفکر کے بعد ہی رائے بنائی جائے اور نقطہ نظر حکومت اور عوام تک پہنچایا جائے، تیسری چیز جو اتحاد و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ ایک تنظیم ادارہ یا قائد دوسری تنظیم ادارے یا فرد کے متعلق رائے زنی نہ کرے اور نہ ہی دوسروں کی سرگرمیوں کی مخالفت یا لعن طعن کرے، ہر ادارے اور تنظیم کو اپنے اپنے مقاصد کو لے کر سرگرم عمل رہنے کی بھرپور آزادی بھی حاصل ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا جماعت اپنی رائے، مسلک اور عقیدہ کو دوسروں پر تھوپنے یا مسلط کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرے اور نہ ہی اپنے نقطہ نظر کو اہم اور دوسروں کی رائے کو غیراہم ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے کہ باہمی رنجشیں، الزام تراشی، اتہام بازی، لعن طعن اور کردارکشی کا باعث بنتی ہیں اور یہ اتحاد ملت کے لئے ’’سم قاتل ‘‘ہیں۔ آخری چیز جس کی طرف ہر تنظیم جماعت اور ادارے کے ذمہ دار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ دین و شریعت اور ملی مفادات کو اپنے ذاتی، خاندانی، جماعتی مفادات پر ترجیح دے اور ہر مسئلہ و اُمور میں اسی ترجیح کے ساتھ غوروفکر کی عادت ڈالے ، ورنہ مختلف مفادات صحیح راستہ سے ہٹا سکتے ہیں۔ اپنی فکر و سوچ میں اخلاص، جرأت اور بے باکی پیدا کرے اور کسی کی بھی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ علاوہ ازیں ذہنی تحفظات کے ساتھ غوروفکر حق و انصاف کے قتل کا باعث بنتا ہے جس میں سے ہر حالت میں پرہیز کی ضرورت ہے۔

ملت کے قائدین، علماء، دانشور اور مختلف تنظیموں،اداروں اور جماعتوں کے سربراہوں کو ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا عارضی ہے۔ دنیا میں ہر آنے والا خالی ہاتھ آتا ہے اور خالی ہاتھ ہی لوٹ جاتا ہے، دنیا کی چمک دمک، عزت، ناموس، عیش و عشرت، شہرت و ناموری نے کسی سے بھی وفا نہیں کی۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو عموماً انسان کو گمراہی میں مبتلا کردیتی ہیں، اہل اقتدار و منصف کو حق و انصاف سے پھیر دیتی ہیں، حق گوئی، بے باکی اور جرأت کو ختم کردیتی ہیں اور انسان کو زعم باطل میں مبتلا کرکے غرور و تکبر کا شکار بنادیتی ہیں، حالانکہ سب کا انجام دنیا میں دیریا سویر رسوائی اور آخرت میں عذاب کے سواء کچھ بھی نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سارے جہانوں کا واحد خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ عزت و ذلت دینے والا اور رزق میں کمی یا زیادتی کرنے والا وہی ہے اور آخرت کی کامیابی ہی مومن کی معراج ہے، ملک میں جس طرح مسلمانوں کے لئے ’’دائرۂ حیات‘‘ تنگ کیا جارہا ہے، خوف و ہراس کا ماحول بنایا جارہا ہے، نت نئے عناوین سے دین و شریعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلمانوں کو دین و ایمان سے پھیرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، ان سب کا مقابلہ کوئی بھی جماعت، تنظیم، سیاسی سورما یا قائد تنہا نہیں کرسکتے، اس لئے اتحاد و اتفاق ہی وہ واحد اور موثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مسلمان اپنی قوت اور طاقت کی دھاک بٹھا سکتے ہیں، اپنی بات منوا سکتے ہیں، ظلم و جبر، خوف و ہراس اور مداخلت فی الدین کو رکواسکتے ہیں، ورنہ ظلم و ستم اور جبر و زیادتی کی یہ آندھی بلاتفریق تمام جماعتوں، اداروں، تنظیموں اور قائدین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، پھر نہ کوئی قائد رہے گا اور نہ ہی کوئی عالم یا دانشور ہی بچے گا!!
سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
عشق قاتل سے بھی ، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا