گورنمنٹ ڈگری کالج حسینی علم میں سیاست اور این سی پی یو ایل کے اشتراک سے سمینار ، مختلف شخصیتوں کا خطاب
حیدرآباد۔22اکٹوبر(سیاست نیوز) سرسید ایک مرد مجاہد تھے ‘ جنھوں نے قوم کی ترقی اور تعلیمی بیداری کے لئے بہت کام کیا‘ مشکلات کا سامنا کیا‘ فتوی بھی لگے مگر اپنے مشن سے کبھی دستبردارنہیں ہوئی‘ یوم سرسید کے ذریعہ نوجوان نسلوں کو سرسید احمد خان کے کارناموں سے واقف کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سرسید احمد خان کی کاوشوں اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اُردو کے ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری نے کہا ہے کہ’’ میںاکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ۔ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔سر سید ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے ‘سیاسی ‘ سماجی ‘مذہبی اور تعلیمی خدمات کے علمبردار ہیں۔ان خیالات کا اظہاراسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ڈاکٹر محمد نہال افروز نے کیا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج برائے نسواں حسینی عالم میں ادارے سیاست‘ گورنمنٹ ڈگری کالج برائے نسواں حسینی عالم‘ قومی کونسل فروغ اُردو زبان( این سی پی یو ایل)کے اشتراک سے منعقدہ ایک روزہ قومی ورک شاپ برائے سرسید احمد خان‘عصر حاضرمیں ان کے افکار کی اہمیت ومعنویت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سرسید احمد خان کی پیدائش سے لے کر سرسید کی ابتدائی تعلیم اورعلی گڑھ اُرد وتحریک کی تفصیلات سے واقف کروایا۔ اس موقع پر تمثیلی مرثیہ خوانی وجلسہ تقسیم اسناد اُردو ڈپلومہ کورس قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کا بھی انعقاد عمل میںآیا۔ ماہر انیسیات شاہ نواز مرزا نے برصغیر کے عظیم مرثیہ گو شاعر میر اانیسؔ کے کلام کو ان ہی کے انداز میں زبانی پیش کیا۔ مرثیہ خوانی کا پروگرام میں شاہ نواز مرزا نے میر انیس ؔ کے مختلف مرثیوں کے بند پیش کئے ۔آرگنائزنگ سکریٹری عبدالقدوس میر انیس ؔ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی بھی ڈالی ۔ اپنے سلسلے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے۔ ڈاکٹر نہال افروز نے مزید میں کہاکہ علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان تھے جس کی وجہہ سے تعلیمی میدان میںہی انقلاب برپا نہیںہوا بلکہ اُردو ادب کو بھی ایک تحریک ملی۔ انہوں نے مزید کہاکہ علی گڑھ ایک تعلیمی تحریک ہی نہیںتھی بلکہ یہ فکری‘ادبی‘ لسانی تحریک بھی تھی۔ جس نے اُردو نثر کو ایک نیا انداز‘ نئی سمت او رنئی روح عطا کی ۔انہوں نے سرسید کو ذہین وفطین اور دو ر اندیش شخصیت کا حامل قراردیا۔ڈاکٹر اسرار الحق سبیلی صدر شعبہ اُردو ارٹس کالج ‘ حیدرآباد نے سرسید کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ تمام مخالفتوں کے باوجود سرسید ہمیشہ اپنے موقف پر قائم رہے ۔محمد غوث وائس پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج برائے نسواں حسینی علم نے سرسیداور میر انیسؔ کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کی عظیم ہستیوں کی یاد میںبھی ورک شاپ اور سمینار منعقد کرنے کا منتظمین کو مشورہ دیا۔رفیعہ نوشین نے میر انیس کی مرثیہ نگاری اور صنف مرثیہ سے واقف کروایا۔اس موقع پر اُردو ماس سوسائٹی فار پیس کی جانب سے منتظمین اور پروفیسرز کو مومنٹوز پیش کئے گئے ۔ پرنسپل کالج پروفیسر اپیا چنناماں ‘ڈاکٹر مختار احمد فردین‘ ڈاکٹر ایم اے نجیب‘جاوید شریف جاگوانڈیاجاگو بھی شہہ نشین پر موجود تھے۔ ڈائرکٹروسکریٹری تلنگانہ اُردو اکیڈیمی محمد صفی اللہ او راسٹنٹ ڈائرکٹر وی کرشنا نے انتخابی ضابطہ اخلاق کا حوالہ پروگرام سے خطاب کرنے سے گریز کیا مگر دونوں کی جانب سے یوم سرسید کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی گئی۔ کنونیر اور صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر محمد انور الدین نے شکریہ کے فرائض انجام دئے جبکہ پروگرام کی کاروائی معاون کنونیر وناظمہ ڈاکٹر ممتاز جہاں ادا نے چلائی۔