روش کمار
شیئر بازار میں زبردست گراوٹ آرہی ہے، 5 دنوں میں بازار میں سرمایہ کاروں کے 16 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ ڈوب گئے۔ 12 فروری کو بھی بازار میں سرمایہ کاروں کے پیسے کا ڈوبنا جاری رہا مگر اس میں کچھ بہتری بھی آئی، زیادہ تر شیئرس کے دام سُرخ رنگ میں ڈوبے نظر آئے۔ 11 فروری کو بازار میں کہرام مچا جو 12 فروری کو بھی جاری رہا بعد میں دن کے دوسرے حصہ میں مارکٹ نے واپسی کی اور ایک فیصد کی بہتری دیکھی گئی۔ ہندی کے ناظرین اور قارئین کو بازار کی خبروں سے نبرد آزما ہونا پڑے گا، تھوڑی مشکل ہوتی ہے ہمیں بھی ہوتی ہے لیکن ان خبروں کو آپ چھوڑ نہیں سکتے اس کا تعلق ہماری بچت اور مستقبل کے منصوبوں سے ہے تو ہم نے آج پھر سے کوشش کی ہے تاکہ بازار کے اُتار چڑھاؤ سے ہمارا واسطہ بنا رہے ۔ سوال ہے کہ کیا متوسط طبقہ کا خواب اب بھی محفوظ ہے ؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اُس بازار سے جو آپ نے اُمید لگائی تھی وہ پوری ہوپائے گی یا پھر یہاں بھی آپ کا انتظار لمبا ہوجائے گا۔
27 ستمبر کو سنسکس 55978 پوائنٹس تھے اور NSE نفٹی 26277 پوائنٹس کو عبور کرگیا۔ دونوں اپنے عروج پر تھے۔ 12 فروری کو سنسکس گر کر 76 اور این ایس ای نفٹی 2300 کے نیچے آیا، کافی دیر کے بعد دونوں میں سدھار ہوا اور سنسکس 76 ہزار سے اوپر اور نفٹی 23 ہزار سے اوپر، اس کے بعد بھی ستمبر2024 سے موازنہ کریں تو بازار میں گراوٹ پائی گئی۔ آپ خود بھی دیکھئے کہ مارکٹ کہاں سے کہاں آگیا اور کسی کو پتہ نہیں کہ اور کتنا گرنے والا ہے۔2023 کی شروعات سے شیئر بازار اوپر جانے لگا تھا بیچ بیچ میں جھٹکے آئے لیکن طویل عرصہ تک بازار میں اوپر جانے کا ہی رجحان رہا، اس رجحان کو دیکھ کر بڑی تعداد میں نئے سرمایہ کار مارکٹ کی طرف دوڑے آئے انہیں فائدہ بھی نظر آیا لیکن طویل عرصہ سے نقصان دیکھتے دیکھتے اُن کا دل مطمئن تو نہیں ہوگا جیٹ کی تپتی دھوپ کی طرح اُن کا دل اس وقت جل رہا ہوگا۔ ستمبر کے ماہ کے بعد سے بازار کبھی کبھار ہی اوپر گیا 2 ماہ کے بیچ میں زیادہ ترنیچے آتا رہا۔ ان 6 ماہ میں ہندوستان کا مارکٹ 489 لاکھ کروڑ سے گھٹ کر 11 فروری کو409 لاکھ کروڑ پر آگیا یعنی سرمایہ کاروں کو قریب 70 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔
11 اور 12 فروری کے دن شیئر بازار کا رنگ سُرخ رنگ میں ہی رنگا رہا، ہر طرف سُرخ ہی سُرخ، ہر سیکٹر میں گراوٹ رنگ لال آٹو میٹل، بنک ، فارما، رئیل اسٹیٹ، کنٹریومر ڈیوریبلس خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں سب کے شیئرس گہرے سُرخ رنگ میں نظر آئے، مارکٹ کا ہر سُرخ رنگ نہ تو محبت کا ہے نہ شراب کا صرف خون کا، دلال اسٹریٹ کو لوگ دا، لال اسٹریٹ پکارنے لگے ہیں‘ اپنے ڈوبے ہوئے پیسے کی آہ میں وسنت کو ویلنٹائن بلانے لگے ہیں۔ مشکل سے سبز رنگ نظر آیا آپ کا پیسہ خون میں نہا رہا ہے، آپ کمبھ میں اسنان کررہے ہیں کروڑوں لوگوں کی عقیدت ڈوبکی لے رہی ہے ، کروڑوں لوگوں کی رقم ڈوبکی لے رہی ہے، جس طرح بازار کو دکھاکر ہندوستان کی ترقی کی کہانی لکھی جارہی تھی وہ پچھلے 6 ماہ سے ڈانواڈول ہے۔ شیئر مارکٹ کی واپسی کے دَم پر متوسط طبقہ نے جو خواب سجائے اُن کا کیا ہوگا؟۔ وہ بیل کی سواری کرنا چاہتے تھے مگر بھالو نے اپنی پیٹھ پر بٹھالیا ہے اس لئے مارکٹ کو بیرش کہا جاتا ہے جب مارکٹ میں گراوٹ آتی ہے۔ مڈل کلاس کیا طویل عرصہ تک گراوٹ کے اس دور کو جھیل پائے گا یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ مارکٹ میں ہوا بھردی گئی تھی اب اسے درست کیا جارہا ہے۔ کئی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ درستگی کا دور پورا ہوگیا ہے۔ کئی لوگ کہتے جارہے ہیں کہ یہ درستگی نہیں ہے گراوٹ ہے اور گراوٹ کا دور طویل ہوگا انواع واقسام کے خیال ہیں۔
مارکٹ کے گرنے کے اِتنے بہانے ہیں کہ سمجھنے والا بھی ڈگمگاجارہا ہے، کچھ لوگ بیرونی سرمایہ کاری کا بہانہ بناتے ہیں جیسے ہی ان کی بات کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے گھریلو پیداوار کا نقصان سن کر پھسل جاتے ہیں‘ کسی طرح سنبھلتے ہیں ٹیرف اور ٹرمپ کا نام سن کر لڑکھڑا نے لگ جاتے ہیں‘ کس کی وجہ سے بازار کب گرا سمجھ نہیں پاتے مگر 6 ماہ سے بازار گرتا جارہا ہے کبھی اِس اخبار میں تو کبھی اُس اخبار میں ڈھونڈا کہ شیئر مارکٹ کیوں گرا جارہا ہے ٹرمپ نے ٹیرف لگانا شروع کیا ہے اس لئے گر رہا ہے مگر نفٹی میں ’فینانشیل ٹائمس‘ میں ایک مضمون پڑھا اُس میں لکھا ہے کہ Tariff War کو لیکر دنیا کے بازار اُتنے فکر مند نظر نہیں آتے جتنا بتایا جارہا ہے۔ رابرٹ آرمسٹرانگ کون ہیں؟ کیسا لکھتے ہیں ہم نہیں جانتے تاہم اُن کا تجزیہ ہے کہ فولاد کی درآمد پر 25 فیصد ٹیکس (Tariff) عائد کرنے کا بازار پر خاص اثر نہیں ہے۔ چین میں بھی بازار کچھ کمزور ہوا ہے لیکن اوپر کی طرف ہے۔میکسیکو اور یوروپ کے بازار میں افراتفری ہے مگر اب صورتحال سنبھل رہی ہے۔ اس تجزیہ میں ہندوستان کے بازار کی چرچا ہی نہیں جبکہ ’ فینانشیل ٹائمس‘ میں ہندوستان کی خبریں آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ٹرمپ کے Tariff Plan کو وجہ بتایا جارہا ہے لیکن کیا دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کا بازار ٹرمپ کے ٹیرف پلان کی وجہ سے گرا جارہا ہے۔
ٹرمپ نے اسٹیل کی درآمدات پر 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کا ٹیرف لگایا ہے۔ امریکہ اپنی اسٹیل کی کھپت کا سب سے زیادہ کینیڈا ، میکسیکو، برازیل، جنوبی کوریا اور ویتنام سے درآمد کرتا ہے۔ امریکہ ہندوستان سے بہت کم مقدار میں اسٹیل درآمد کرتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ کے Tariff War سے ہندوستان کے بازار پر کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن ہندوستان کا بازار تو پہلے ہی سے گرتا چلا آرہا ہے اور ہمارا سوال بس اِتنا ہے کہ ٹرمپ کی وجہ کو کہیں بڑھا چڑھا کر تو نہیں بتایا جارہا ہے۔میٹل کی کمپنیوں کے دام گرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن شیئر بازار میں ایسا کوئی شعبہ نہیں بچا جس میں گراوٹ نہ دیکھی جارہی ہو۔6 ماہ سے بازار کی گراوٹ کیا کہتی ہے، ہندوستان کا روپیہ گرتا جارہا ہے۔منگل کو ریزرو بینک نے نہیں سنبھالا ہوتا تو ایک ڈالر کا دام 88 روپئے سے نیچے چلاگیا ہوتا۔ 12 فروری کے’بزنس اسٹینڈرڈ ‘ کے پہلے صفحہ پر خبر شائع ہوئی ہے کہ مارکٹ کی وجہ سے ریزروبنک آف انڈیا نے دو دن میں 12 ارب ڈالرس فروخت کئے ہیں تب جاکر روپیہ ٹِک پایا ہے۔ شائد اسی کا نتیجہ رہا ہوگا کہ 12 فروری کو ہندوستانی روپئے نے دو سال میں سب سے دَم دار واپسی کی ہے۔