تعلیمی نظام میں تشویشناک رجحان، متعدد اسکولس بند
حیدرآباد۔/3 جنوری، ( سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں سرکاری شعبہ کے تعلیمی نظام میں ایک تشویشناک رجحان ہے۔ تلنگانہ کے سرکاری اسکولوں اور جونیر کالجوں میں داخلوں میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھی گئی ہے جو نجی اداروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بالکل برعکس ہے۔ تعلیمی سال 2021-22 میں داخلے 33,03,699 سے کم ہوکر 2022-23 میں 30,09,212 ہوکر 2023-24 میں 27,79,713 ہوگئی۔ اس گراوٹ نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں دیئے جانے والے تعلیمی معیار کے بارے میں سرکاری ادارے میں خطرہ کی گھنٹی بجائے۔ دوسری جانب خانگی اداروں میں داخلے 2021-22 میں 35,141,338 سے بڑھ کر 2022-23 میں39,27,042 سے بڑھ کر 2023-24 میں 33,31,380 ہوگئے جس سے 2021-22 کے مقابلہ 9,17,042 زیادہ داخلے ہوئے۔ تعلیمی سال 2023-24 کے دوران 12,126 خانگی اداروں کے مقابلہ سرکاری اداروں کی تعداد 30,022 تھی۔ یہ انکشاف یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن کی رپورٹ میں کیا گیا جو حال ہی میں وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ بڈی باٹا کے انعقاد کے باوجود سرکاری اسکولوں میں داخلوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ پچھلے کئی برسوں سے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ہر گھر تک پہنچ کر طلبہ کو اپنے اپنے اسکولوں میں داخل کروانے کی مہم چلارہے ہیں اس کے علاوہ آنگن واڑی مراکز کے بچوں کو براہ راست سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخل کیا جارہا ہے۔ درحقیقت پرائیویٹ سیکٹر سے 1.5 لاکھ طلبہ سرکاری اسکولوں میں منتقل ہوگئے کیونکہ طلبہ کے والدین کوویڈ ۔19 اور لاک ڈاون کے دوران اسکول کی فیس ادا کرنے متحمل نہیں تھے۔ انگریزی میڈیم تعلیم کی مانگ کے پیش نظر حکومت نے ریاست بھر کے تمام اسکولوں میں اسے متعارف کرایا تھا۔ تلگو سے انگریزی ذریعہ تعلیم میں طلبہ کی آسانی سے منتقلی کو یقینی بنانے کیلئے طلبہ کو دو لسانی نصابی کتابیں بھی فراہم کی گئیں۔ یہ تمام کوششیں طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں برقرار رکھنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ انفرااسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے جو طلبہ کوویڈ۔19 کے دوران شامل ہوئے تھے وہ خانگی اسکولوں میں منتقل ہوگئے۔ علاوہ ازیں اولیائے طلبہ کیلئے یہ امر باعث فخر بن گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خانگی اسکولوں میں داخل کریں۔ کم از کم اب حکومت کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی۔ تعلیمی نظام میں والدین میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوگیا ہے ورنہ ہر تعلیمی سال سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہونے پر کئی اسکولوں کو بند کرنا پڑسکتا ہے۔ ش