ابو معوذ
وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی جھوٹ اُن کی دروغ گوئی اور پروپگنڈہ مشنری کی ناپسندیدہ بلکہ نازیبا حرکتوں (فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے والی حرکتوں) سے کون واقف نہیں۔ گجرات 2002ء فسادات اور مسلمانوں کے قتل عام، مسلم لڑکیوں اور خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے ہولناک واقعات کیلئے کون ذمہ دار تھا، اس بارے میں سابق آئی پی ایس عہدیداروں سنجیو بھٹ، آر بی سری کمار کے ساتھ ساتھ سماجی جہدکار تیستا سیتلواد اور شہید احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری اور حقوق انسانی کے درجنوں جہدکاروں کے بیانات کافی ہیں۔ یہ بہت ہی افسوسناک بلکہ بدبختانہ بات ہے کہ سچائی کا ساتھ دینے گجرات میں مسلمانوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور دیانت داری کا مظاہرہ کرنے والے آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ کو پدم شری، پدم بھوشن، پدم ویبھوشن اور بھارت رتن جیسے باوقار اعزاز عطا کرنے کی بجائے عمر قید کی سزا سناکر جیل میں ڈھکیل دیا گیا اور ذکیہ جعفری نے ’’گجرات کے قصائی‘‘ کو کیفرکردار تک پہنچانے کی اپنی آخری سانس تک کوشش کی جو ناکام رہی تاہم آخری سانس تک ان کی زبان پر گلبرگ سوسائٹی میں قتل کئے گئے 69 بے قصور و معصوم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ریاست گجرات کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والوں اور ان کے آقاؤں کے نام رہے لیکن افسوس اس ضعیف العمر خاتون کی آواز کو بڑی بے شرمی کے ساتھ دبا دیا گیا۔ یہ سوچ کر کہ ہمیں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کلین چٹ دیا ہے۔ وہ آپے سے باہر ہوگئے ہیں ۔ بے شک سپریم کورٹ نے تمہیں کلین چٹ دی ہے لیکن سب سے بڑی عدالت تو قدرت کی ہوتی ہے۔ اس عدالت کا جب فیصلہ آئے گا تب تمہاری عیاری، مکاری، چالبازی، شاطرانہ چالیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور خود تمہاری زبانیں یہ گواہی دیں گی کہ یہ جھوٹا ہے، یہ مکار ہے، یہ ظالم ہے، اس نے مذہب کے نام پر معصوم انسانوں کا قتل کروایا۔ حصول اقتدار کیلئے خون کی ہولی کھیلی۔ ہم بات کررہے تھے ہمارے عزت مآب وزیراعظم نریندر مودی کی 2014ء میں جن کے اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں جانوروں کے نام پر مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہجومی تشدد کے ذریعہ خاص طور پر مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو شہید کردیا گیا۔ گاؤ رکھشک، حکومتوں اور پولیس کی سرپرستی میں جیسا کہ حقوق انسانی کے جہدکار الزامات عائد کرتے ہیں، بے قصور مسلمانوں کو قتل کیا جس میں نوجوان بھی تھے، ادھڑ عمر اور ضعیف العمر لوگ بھی۔ مودی کی زیرقیادت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی منصوبہ بند انداز میں مسلمانوں کو، مساجد، مدارس، درگاہوں، خانقاہوں اور قبرستانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں بالخصوص اترپردیش، آسام، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا وغیرہ میں مختلف بہانوں سے بے شمار مساجد اور مدارس کو شہید کردیا گیا۔ مختلف بہانوں سے درجنوں مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلائے گئے۔ مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مودی کی آبائی ریاست میں سومناتھ مندر کے قریب سومناتھ ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کیلئے کم از کم 7.4 ایکڑ اراضی پر موجود 21 مکانات 153 جھونپڑیوں اور قدیم ترین درگاہ کو مسمار کردیا گیا جس کیلئے 36 بلڈور، 7 ٹریکٹرس اور 10 ڈمپرس کا استعمال کیا گیا۔ اس موقع پر 1200 پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ اس اراضی پر ناجائز قبضے کئے گئے جبکہ جس درگاہ کو شہید کیا گیا، وہ صدیوں قدیم تھی۔ مودی حکومت کے بارے میں یہ بلاجھجھک کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہندوستان کے کونے کونے میں مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے وقفہ وقفہ سے ان کے خلاف قانون اور پولیس کو استعمال کررہی ہے۔ اب تو مغربی بنگال جیسی ریاست میں جہاں مسلمان وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، مرکزی فورسیس کو تعینات کردیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مرشدآباد فسادات اور ریاست میں خراب لا اینڈ آرڈر کا بہانہ بناکر ممتا بنرجی کی ریاست میں گورنر راج نافذ کردیا جائے۔ بہرحال مودی حکومت میں مسلمانوں عیسائیوں یہاں تک کہ سکھوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ یہ حکومت ، ہندو راشٹر کے خفیہ ایجنڈہ کو اب ببانگ دہل آگے بڑھا رہی ہے حالانکہ آج اگر ہم اپنے ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، بیروزگاری نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے، خواتین حد تو یہ ہے کہ شیرخوار بچیوں کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں (حال ہی میں راجستھان جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مندر کے باہر اپنے غریب ماں باپ کے ساتھ سو رہی 3 سالہ بچی کو اغوا کرکے اس کی عصمت ریزی کردی گئی۔ یوگی جن کو ممتا بنرجی نے ’’سب سے بڑا بھوگی‘‘ قرار دیا ہے، ان کی ریاست میں تین چار دن قبل ایک 11 سالہ قوت سماعت و گویائی سے محروم بچی کی اجتماعی عصمت ریزی کا شرمناک واقعہ پیش آیا)۔ ملک میں بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ فرقہ پرستی نے ہمارے جنت نشان ہندوستان کو ایک وباء کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تعلیمی شعبہ کو تقریباً زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ درج فہرست طبقات و قبائل، ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ مفاد پرست، صنعت کار، انگریزوں کی طرح ہندوستان کی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ معیشت روبہ زوال ہے۔ پٹرول و ڈیزل اور اشیائے مائحتیاج کی بڑھتی قیمتوں نے ماضی کے تمام ریکارڈس توڑ دیئے ہیں۔ چین ہزاروں کیلومیٹر تک دراندازی کرچکا ہے۔ چین کے ساتھ ہندوستان کا تجارتی خسارہ 100 ارب ڈالرس تک پہنچ چکا ہے۔ ملک کے 30 فیصد نوجوان تعلیم، تربیت اور روزگار سے محروم ہیں۔ ہر شعبہ میں کرپشن، ہر معاملے میں ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ بقول شرد پوار مرکزی ایجنسیاں بشمول سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا حکومت کے اشاروں پر ناچ رہی ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کی بجائے آپ دیکھیں گے کہ مودی جی کی حکومت میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو، ماضی کے مسلم حکمرانوں کو ان کی تعمیر کردہ فن تعمیر شاہکار عمارتوں کو یہاں تک کہ اب ان کی قبور و مزاروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ زبانی طور پر مسلمانوں اور خاص طور پر پسماندہ مسلمانوں (مودی حکومت کا یہ ایک نیا شوشہ ہے) مسلم خواتین کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت نے مذہب پر مبنی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے ذریعہ اپنی مسلم دشمنی کا بدترین ثبوت دیا ۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے کئے اور اسے دستور کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف ختم کرنے دفعہ 370 کو منسوخ کردیا۔ مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے کا قانون منظور کروایا اور اب اس کی بری نظر مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں پر پڑی ہے پھر ہمارے ہندوستان نے دیکھا کہ وقف ترمیمی قانون منظور کیا گیا۔ اس بارے میں مودی حکومت بلکہ موی ۔ شاہ جوڑی کا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہمدرد ہیں۔ اس طرح کی دروغ گوئی کرتے ہوئے مودی ۔ شاہ جوڑی کو تھوڑی سی شرم آنی چاہئے تھی کیونکہ اگر مودی، بی جے پی اور ان کی حکومت مسلمانوں کی ہمدرد ہوتی تو ان کے 240 ارکان لوک سبھا، 128 (ارکان راجیہ سبھا بشمول ان کے حلیف جماعتوں کے ارکان) اور 72 وزراء میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ مودی جی ان کی حکومت، بی جے پی کو مسلمانوں سے ہمدردی نہیں ہے بلکہ وہ مسلم دشمنی کے ذریعہ اور ہندوستانی شیعوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی 125 درخواستوں کی سماعت کے پہلے اور دوسرے دن حقیقت میں مودی حکومت کی بدنیتی کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ مودی جی کے بارے میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کا کہنا ہے انہیں شرم آنی چاہئے۔ وہ دوغلے ہیں۔ مسلم و عرب ملکوں میں جاتے ہیں تو ان کا ایک چہرہ ہوتا ہے، وہاں وہ مسلم حکمرانوں سے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتے ہیں، بغلگیر ہوتے ہیں، وہاں کے اعزازات اپنے گلے میں ڈال کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ سعودی عرب، افغانستان، فلسطین، مالدیپ، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، کویت، ماریشیس نے انہیں اعلیٰ ترین اعزازات سے سے نوازا۔ مملکت قطر میں بھی انہیں عزت دی گئی۔ متحدہ عرب امارات میں تو ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بابری مسجد پر تعمیر کی گئی رام مندر سے کہیں زیادہ بڑی اور عالیشان مندر تعمیر کروائی گئی جس کا افتتاح انہوں نے خود کیا۔ بہرحال ملک میں مسلمانوں کے خلاف وقف ترمیمی قانون منظور کروانے اور پھر چند ملت فروش، دلالوں بلکہ تلوے چاٹووں کی جانب سے جھوٹی مداح سرائی کے بعد جاریہ ماہ کے اواخر میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورہ کا مقصد سعودی عرب سے دوستانہ تعلقات پروان چڑھانا نہیں بلکہ مسلم دشمن وقف ترمیمی قانون کو منصفانہ قرار دینے کی ایک مکارانہ کوشش ہے۔ شاید وہ اس بات کا تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان ان (مودی) کے ساتھ ہیں، ان کی تائید و حمایت کررہے ہیں۔اب یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ سعودی حکمراں آخر کیوں مودی جی کو جھیل رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی جی اور ان کی حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم ان کے ساتھ ناانصافی اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کیلئے بدنام ہوگئی ہے ۔ یہ بھی اطلاعات آرہی ہیںکہ مودی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو مودی کے پروگرامس میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ۔ مودی نے ماضی میں بھی بڑی ہشیاری کے ساتھ یہ کہا تھا کہ طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے کا مقصد مسلم خواتین سے ہمدردی ہے۔ جبکہ برنداون سے لے کر ملک کے کونے کونے میں ہندو بیواؤں اور دلت خواتین کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا جارہا ہے، اس پر مودی جی اسی طرح مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس طرح منی پور میں عیسائیوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ اس قدر غم میں مبتلا تھے کہ 79 دنوں تک ان کی زبان بند رہی۔ انہوں نے اپنا منہ کھولا۔ بہرحال نام کے چند مسلمانوں جنہیں ہم دلال اور بروکرس کا نام دے سکتے ہیں۔ مودی جی کے تلوے چاٹنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔ مودی جی مشرقی وسطیٰ میں کہیں بھی جاتے ہیں تو چہرہ پر داڑھی، سر پر ٹوپی اور برقعہ پوش خواتین کے ایک گروپ کی شکل میں مودی جی کے ہاتھ چومنے لگتے ہیں۔ ان کے بارے میں وہ باتیں کرتے ہیں، مودی جی جن کے قابل ہی جی نہیں ہیں۔