ڈاکٹر سعود بن محمد الساطیی
(سفیر سعودی عرب متعینہ ہندوستان)
مملکت سعودی عربیہ 23 ستمبر کو اپنے 89 ویں قومی دن کا جشن منارہا ہے ۔ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے اتحاد کے ذریعہ مملکت سعودی عربیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ بانی مملکت اور ان کے جانشینوں کی قربانیوں نے مملکت کی ایک شاندار تاریخ بنائی۔ یہ وہی شخصیتیں ہیں جنہوں نے ہماری عظیم مملکت کو ایک علاقائی قائد اور عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل کیا۔ خادم الحرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز آل سعود عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود ولیعہد، نائب وزیر اعظم و وزیر دفاع کی قیادت میں سعوی عرب ترقی و خوشحالی کا اپنا شاندار سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
مملکت کو عصری بنانے اور ہمارے خوابوں کی تکمیل کیساتھ ساتھ ہماری عظیم قوم کیلئے مقررہ ویژن کو سچ کر دکھانے کی سمت پیشرفت
ہم اپنی معیشت ، حکمرانی اور معاشرہ کو اس سمت آگے بڑھانے کیلئے کام کررہے ہیں جس کا خواب ہمارے عظیم ملک کی قیادت نے دیکھا ہے۔ حکومت نے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی اور مملکت کو آگے بڑھانے کیلئے عزم و حوصلوں سے پُر ویژن 2030 تیار کیا ہے اور اسی ویژن کے تحت ہم اب مابعد تیل دور عالمی درجہ کی ٹکنالوجیکل ریسرچ ، فروغ اسٹارٹ اَپ، کاروباری و صنعتی طاقت اور سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع پر ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور اسی نہج پر کام کررہے ہیں۔ ہماری قیادت نے ویژن 2030 میں سعودی شہریوں اور ان کی خواہشات و تمناؤں کو سب سے زیادہ اہمیت باالفاظ دیگر اولین ترجیح دی ہے۔ مملکت سعودی عرب کی ساری ترقی تین اہم ستونوں پر ٹہری ہوئی ہے، ایک تو درخشاں معاشرہ کی تعمیر، دوسرے اقتصادی فروغ اور تیسرے اور پُرعزم قوم کیونکہ قوموں کے عزائم ہی انہیں ترقی کی بلندیوں پر پہنچاتے ہیں۔ مملکت نے اقتصادی اور سماجی اصلاحات پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے اور ان کے شروع کردہ اقتصادی و سماجی اصلاحات نے ثمر آور ثابت ہونا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ عالمی مالیاتی ادارہ انٹر نیشنل مانٹسری فنڈ (IMF) کو توقع ہے کہ ہماری غیر تیل صنعتی شرح نمو میں 2019 میں بڑھ کر 2.9 فیصد ہوگی۔ موجودہ ترقی آئی ایم ڈی ورلڈ کامپیٹیٹونیس ایر بک میں سعودی عرب کو 26 واں مقام عطا کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سعودی عرب اپنے G20 دوست ممالک میں ساتواں انتہائی مسابقتی ملک بن گیا ہے ۔ عالمی بینک میں G20 ملکوں میں مملکت سعودی عرب کو چوتھا سب سے بڑا اصلاحات نافذ کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔ سال2030 تک عالمی سرمایہ مارکٹ کے دس سرفہرست ملکوں میں سعودی عرب کو شامل کروانا ہمارا مقصد ہے۔
ہم لوجسٹکس پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور آئندہ دس برسوں کے دوران مملکت میں 1.6 کھرب ریال نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا بھی ہمار ایک مقصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ نجی سرمایہ قومی صنعتی ترقی اور لوجسٹکس پروگرام کے ذریعہ ہوئے ہمہ جہتی گپگا پراجکٹس بشمول نیوم قدیہ، بحر احمر سیاحتی پراجکٹ وغیرہ سعودی عرب کا سیاحتی نقشہ بدلنے کیلئے تیار ہیں۔ یہاں سبز ریاض کا خصوصی حوالہ دینا ضروری ہے جو شہروں کو سرسبز و شاداب بنانے سے متعلق دنیا کے سب سے بڑے پراجکٹس میں سے ایک ہے اس کے ذریعہ 7.5 ملین درخت لگاتے ہوئے ( شجرکاری کرتے ہوئے ) سعودی دارالحکومت میں سرسبز و شاداب علاقہ کو 1.5 فیصد سے بڑھا کر9.1 فیصد کردیا جائے گا جس سے فی کس سبز جگہ کی دستیابی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت WHO نے جو سفارشات کی ہیں اس سے تقریباً تین گنا فی کس سبز جگہ دستیاب ہوگی۔ یہ پراجکٹ اور مجموعی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیس کمی کا باعث بنے گا۔ اس کے علاوہ مملکت میں آبپاشی کیلئے یومیہ ایک ملین کیوبک میٹر ٹرپٹیڈ سیوریج کے استعمال میں بھی مذکورہ پراجکٹ ممد و معاون ثابت ہوگا۔ دوسری طرف شاہ سلمان پارک پراجکٹ ایک اور بڑا پراجکٹ ہے جو دنیا کا سب سے بڑا سٹی پارک بننے والا ہے۔ یہ پارک ایک قومی تھیٹر، ایک اوپیرا ہاؤس اور 18 سوراخ کے حامل شاہی گولف کورس پر مشتمل ہوگا۔ ویژن کے ایک حصہ کے طور پر مملکت سعودی عرب اسٹریٹیجک ٹکنالوجی کو مقامیانے کا مقصد رکھتی ہے تاکہ نوجوان سعودی شہریوں کو انتہائی عصری ٹکنالوجیز کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل سکے۔ جہاں تک آئی ٹی اور ٹکنالوجی مارکٹ کا سوال ہے 12 ارب ڈالرس مالیتی آئی ٹی مارکٹ اور 10 ارب ڈالرس مالیتی اُبھرتی ٹکنالوجی مارکٹ کے ساتھ مملکت سعودی عرب دنیا کی انتہائی پُرکشش معیشتوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے مضبوط و طاقتور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر نے موبائیل انٹرنیٹ اسپیڈ یا رفتار کو چار گنا زیادہ کررہا ہے۔ اس طرح یہ رفتار کے معاملہ میں عالمی اوسط کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے فائبر نٹ ورک کوریج کو بھی 50 فیصد تک بڑھادیا ہے اور اسے ایک ملین اضافی مکانات تک وسعت دیتے ہوئے 100 فیصد انٹرنیٹ رسائی فراہم کی ہے۔ نئی مضبوط مواصلاتی بنیادی سہولتوں نے شعبہ صحت کو 2030 تک قومی مجموعی پیداوار ( بی ڈی پی ) میں تقریباً 500 ملین تک اپنا حصہ ادا کرنے پر اُبھارا ہے۔
دوسری طرف ہماری ای ۔ حکمرانی پہل حکومتی اداروں کی تعمیر کررہی ہے اور یہ انتہائی موثر ، شفاف اور جوابدہ ہیں۔ ہم تجارتی لائسنس اندرون 24 گھنٹے جاری کررہے ہیں جبکہ صرف 5 منٹ میں پاسپورٹ کی تجدید کردی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل اجازت دس منٹ سے بھی کم وقت میں مرحمت کی جارہی ہے۔سفر حج کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کیلئے ہم حج سے متعلق کارروائی کو مکمل طور پر خودکار بنانے کا مقصد بھی رکھتے ہیں۔ مقام آن لائن پورٹل، درخواست فارمس کی تکمیل کے اندرون چند منٹ الیکٹرانک ویزے جاری کررہا ہے۔ عازمین و معتمرین کی سہولت کی خاطر جدہ اور مدینہ ایرپورٹس پر نئی ٹکنالوجیز استعمال کی جارہی ہیں ۔ مکہ روڈ پہل سے بھی ایک ریکارڈ وقت میں عازمین کو مملکت سعودی عرب میں داخل ہونے کی منفرد سہولت ہے ۔ خانگی شعبہ سے شراکت داری کے ساتھ ہم عازمین و معتمرین سے متعلق ڈاٹا کو یکساں بنانے کیلئے کلاوڈ ٹکنالوجیز کو بھی فروغ دے رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر کراؤڈ مینجمنٹ ، حمل و نقل اور لوجسٹکس میں بہتری کیلئے اس کا استعمال کیا جاسکے۔
بڑے پیمانے پر حمل و نقل کے
عصری نٹ ورکس کی تعمیر
پبلک اور کمرشیل ٹرانسپورٹ کیلئے ایک مضبوط انفراسٹرکچر کا فروغ ہماری مملکت کے خوابوں کو سچ کر دکھانے کیلئے ایک جوہر سازکی حیثیت رکھتا ہے۔ مملکت سعودی عرب تین براعظموں ایشیاء، یوروپ اور آفریقہ کے درمیان ایک اہم ترین لاجسٹکس پلیٹ فارم کی حیثیت سے اپنے مقام و موقف کو استحکا م بخشنے حمل و نقل کے عصری نٹ ورک کی تعمیر پر بہت زیادہ سرمایہ مشغول کررہی ہے۔
نئی ریاضی پٹرو یومیہ 1.16 ملین مسافرین کو سفری خدمات فراہم کرے گی جبکہ ریاض بس نٹ ورک یومیہ 90 ہزار مسافرین کو خدمات فراہم کرتے ہوئے انہیں میٹرو ٹرین سہولتوں تک لائیں گی۔ یہ دراصل ریاض پبلک نٹ ورک پراجکٹ(RPTN) کا ایک حصہ ہے۔ سعودی ریلوے کمپنی (SAR) اورHUAWEI اسمارٹ ریلوے کے شعبہ بشمول نئی جنریٹس ریلوے وائرلیس نٹ ورک، انٹر نٹ آف تھنگس ، مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ سرویس اور سعودی عرب ریلوے کے ریلوے نٹ ورک میں اطلاق ، ڈیزائن اور اخراجات کیلئے متحدہ طور پر کام کریں گے۔ اس تناظر میں حرمین تیز رفتار ریلوے مکمل طور پر کارکرد ہے اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے درمیان سالانہ 60 ملین مسافرین کو حمل و نقل کی سہولت فراہم کرنے کی اس میں گنجائش ہے۔
امن و استحکام کی برقراری
سعودی عرب عالمی سطح پر دہشت گردی ، دہشت گردوں کو مالیہ کی فراہم اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کی قیادت کررہا ہے۔ حال ہی میں ہم نے ایسا پہلا عرب ملک بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے جسے عالمی سطح پر کام کرنے والے فینانشیل ایکشن ٹاسک فورس جیسے ممتاز ادارہ کی رکنیت دی گئی ہے۔ یہ ادارہ دہشت گردوں کو مالیہ کی فراہمی کے خلاف کام کرتا ہے علاقہ میں امن و استحکام کے فروغ سے متعلق ہماری قیادت کی کوششیں مستقل طور پر جاری ہیں۔ اپر پٹرپا اور ایتھو پیا نے ستمبر 2018 کے دوران جدہ میں خادم الحرمین شریفین کی موجودگی میں تاریخی امن معاہدہ پر دستخط کئے ۔ اس طرح دو دہوں سے جاری جنگ اپنے خاتمہ کو پہنچی۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے فریقین کو بات چیت کی میز پر لانے اور دونوں کے درمیان امن معاہدہ کروانے میں سعودی قیادت کے کردار کی ستائش کی۔ہماری انسانی کوششوں میں ہمارے اقدارہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ مملکت کی ترقی و انسانی امداد سعودی عرب کی قومی مجموعی پیداوار کا 3.7 فیصد حصہ بنتا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے ترقی و انسانی امداد کیلئے جی ڈی پی کا 0.7 فیصد شرح کی تجویز رکھتا ہے اور اس تجویز کو بھی عبور کرتے ہوئے اس معاملہ میں سعودی عرب بہت آگے نکل چکا ہے۔ مملکت سعودی عرب نے95 ترقی پذیر ممالک کو تقریباً 116 ارب ڈالرس کی مالی مدد میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔پائیدار ترقی کے مقاصد پر عمل آوری کیلئے مناسب مالیہ کی فراہمی آج دنیا کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ سعودی عرب نومبر 2020 میں G20 کی میزبانی بھی کررہاہے۔ ہم ایک ایسے ایجنڈہ کے ذریعہ پائیدار اقدامات کا عزم رکھتے ہیں جس میں ماحولیاتی تبدیلی ، غذائی سلامتی برقی اور پانی تک رسائی کے علاوہ انسانی سرمایہ میں سرمایہ کاری کو یقینی بنانا شامل ہے۔
ہندوستان کیساتھ ہماری اسٹریٹیجک شراکت داری
ہم ہندوستان کی مسلسل شراکت داری کے خواہاں ہیں ، مملکت سعودی عرب ہندوستان کو ایک قریبی دوست اور قابل قدر اسٹریٹیجک شراکت دار سمجھتا ہے ۔ ہماری حرکیاتی تہذیبی و ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی شراکت داری‘ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہیں۔ مملکت میں تقریباً30 لاکھ ہندوستانی مقیم ہیں اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی ترقی میں ان تارکین وطن ہندوستانیوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ہم نے حال ہی میں نئی ریسیڈنٹس پرمٹ اسکیم کا کوالیفائیڈ عالمی تارکین وطن کیلئے اعلان کیا ہے جس سے ہندوستان اور دنیا بھر کے عالمی صنعت کاروں، اختراعی ذہنوں کے حامل ماہرین اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مدد ملے گی۔
جاریہ سال کے اوائل میں عزت مآب ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا دورہ ہند دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون و اشتراک کے سلسلہ میں ایک سنگ میل رہا ہے۔ اس دورہ کے دوران سعودی عرب اور ہندوستان نے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل قائم کی۔ سعودی عرب توانائی، ریفائننگ، پیٹرو کیمکلس، انفراسٹراکچرس ، زراعت، معدنیات اور کانکنی، مینوفیکچرنگ، تعلیم و صحت جیسے شعبوں میں ہندوستان میں 100 ارب ڈالرس کا سرمایہ مشغول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مرکنڈائیز ٹریڈ خاص طور پر غیر ۔ تیل تجارت میں کافی غیر استعمال شدہ مواقع پائے جاتے ہیں اور ہم اقتصادی، تجارتی سرمایہ کاری، ثقافتی اور ٹکنالوجیکل شعبوں میں تعاون و اشتراک بڑھارہے ہیں۔ جاریہ سال مختلف شعبوں میں مشترکہ تعاون اور سرمایہ کاری کے 40 سے زائد مواقعوں کی نشاندہی کی گئی جبکہ ہماری باہمی تجارت جو 34 ارب ڈالرس مالیتی ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مستقبل میں بڑھتی ہی جائے گی۔ سعودی آرامکو نے ہندوستان کے شعبہ توانائی میں سرمایہ مشغول کرنے کی جو تجویز رکھی ہے جسے ویسٹ کوسٹ ریفائنری اور مہاراشٹرا میں پیٹرو کیمیکل پراجکٹ میں 44 ارب ڈالرس کی سرمایہ کاری کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب، دونوں ملکوں کی عوام کی ترقی خوشحالی کیلئے ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کس قدر خواہشمند ہے۔
یہ دورہ واقعی سعودی عرب ۔ ہندوستان تعلقات کیلئے ایک نئی صبح کی آواز ہے۔ اس درمیان ہی نئی دہلی کے چانکیہ یوسی علاقہ میں مملکت سعودی عرب کے سفارت خانہ کے نئے سفارتی کامپلکس کا افتتاح عمل میں آیا ۔ اس موقع پرسعودی مملکتی وزیر اُمور خارجہ و کابینہ کے رکن عادل بن احمد الجببیر اور اُس وقت کی ہندوستانی وزیر اُمور خارجہ آنجہانی سشما سوراج بھی موجود تھے۔ سفارتی کامپلکس کا ڈیزائن جہاں سعودی عرب کے فن تعمیر کی علامت ہے وہیں سعودی سفارت خانہ اور ہندوستانی عوام کے درمیان مہمان نوازی پر مبنی تعلقات کا پیام بھی دیتی ہے۔
رواں سال جون میں جاپان میں G20 سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ولیعہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی جس میں تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سلامتی، انسداد دہشت گردی کے بشمول کئی شعبوں میں باہمی تعاون و اشتراک کو مزید مضبوط کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایک ایسے وقت جبکہ ہم متحدہ طور پر نئے مواقع کی تلاش کررہے ہیں دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان تاریخی بندھن کا سلسلہ جاری رہے گا اور دوستانہ تعلقات و اسٹریٹیجیک پارٹنر شپ مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔٭