سوشل میڈیا معاشرے کی اصلاح کا مؤثر ہتھیار✍🏼 مفتی محمد عرفان عالم قاسمی!

,

   

آج دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے جدید ٹیکنالوجی جس تیز رفتار کے ساتھ ترقی کررہی ہے، ماضی میں اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انسانی زندگی میں ابلاغ وترسیل کو شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال آج کل سب سے زیادہ اہم ہے، دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے پل بھر میں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اس وقت ہر انسان کے زیر استعمال ہے جس میں سب سے زیادہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ایم ایم ایس، اور ایس ایم ایس قابل ذکر ہے۔اب تو میڈیا بھی سوشل میڈیا کے بغیر ادھورا ہے موجودہ دور میں سوشل میڈیا کو ذہن سازی کا ریموٹ کنٹرول کہا جاۓ تو بے جا نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا کو معاشرے میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔سوشل میڈیا کا بنیادی مقصد زندگی میں سہولت،مثبت سمت میں سفر اور تعمیری کاموں میں معاونت ہے۔سوشل میڈیا امن،تعلیم اور شعور کے پرچار کا بہترین اور آسان ترین ذریعہ ہے۔ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا بڑا اہم مقام حاصل ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان آیتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ *ادع الی سبیل ربک (نحل:٥٢١) ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ( آل عمران١٠٤) کنتم خیر امۃاخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر ( آل عمران ٠١١) وذکر فان الذکر تنفع المومنین ( ذریات:٥٥) اور حدیث شریف *نضر اللہ امرا سمع مقالتی* وغیرہ میں اسلام کے آفاقی پیغام کے ابلاغ و ترسیل کا حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پر دعوت و اشاعت، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا کے سہارے کے بغیر ممکن ہے؟اسلام میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے عوام الناس تک سچی او صحیح خبر پہنچائی جائے ذرائع ابلاغ کے ذریعے صرف ایسی معلومات کی اشاعت کرنی چاہیے جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقوی کا عنصر پیدا ہو اسلام میں اظہار کی آزادی محض انسانی حق ہی نہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کا ایک دینی اور اخلاقی فرض بھی ہے۔ابلاغ و ترسیل اگر سچ پر مبنی ہوگا معاشرے میں اچھی اقدار کو فروغ اور استحکام ملے گا اور معاشرہ ایک مثبت سمت میں آگے بڑھتا جائے گا۔ ابلاغ میں کذب کی ملاوٹ ہوگی تو معاشرے میں ہر طرف نفرت، انتشار، بے چینی اور پریشانی کا ماحول پیدا ہوگا۔ ابلاغ وترسیل میں صدق عمل،اور پیغمبرانہ روش کاہوناضروری ھے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سب سے بڑی ذمہ داری ابلاغ صدق ہے جسے وہ اپنے اپنے عہد میں نبھا تے رہے ہیں۔ قرآن کریم “ابلاغ” کے ساتھ “ابلاغ مبین” کی بات کرتا ہے ابلاغ مبین سے معاشرے کے افراد کے اقوال و اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس وقت اس بات کی کی اشد ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے کیوں کہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں اور اس ذریعے کو بالکل ختم کر دینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطہ نظر سے اس کو مفید طریقے پر استعمال کرنا اور اس کے نقصان دہ پہلو سے بچنا ضروری ہے مثلاً جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقے پر ذبح کیا جا سکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے وہی چاقو کسی بے قصور کے سینے میں پیوست بھی کیا جا سکتا ہے تو ہمارے لیے یہاں یہ راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت حاصل کریں لہذا ہم سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف ایسے پروگرامز کا انعقاد کریں جو عوام الناس کے لئے نفع بخش ہو جس سے عوام و خواص رہنمائی حاصل کر سکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “حکمت کی بات بندہ مومن کی گمشدہ متاع ہے اسے جہاں پاتا ہے اٹھا لیتا ہے-” (ترمذی السنن جلد نمبر ٥ صفحہ نمبر 51) سوشل میڈیا برائی اور اچھائی کا مشترکہ مجموعہ ہے لہذا اس کا استعمال احتیاط سے کرنا ہماری ذمہ داری ہے یہ فیصلہ اب ہمارے اوپر منحصر ہے کہ آیا اس کے مثبت استعمال سے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوار لیں یا دونوں جہانوں کی ناکامی اپنے سر لے لیں۔سائنس کے اس ترقی کے دور میں پیغام رسانی کے جتنے طریقے رائج ہیں سب سے معاشرے کی اصلاح کا کام لیا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کا احساس کرے میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرے کی ترقی اور اصلاح ہےاور معاشر تی اور انسانی اقدار کا تحفظ اور ان کا شعور دینابھی میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے میں جو ذمہ داری ایک فرد کی ہے وہ اجتماعی صورت میں میڈیا کی ہے لہٰذا میڈیا کا کردار غیر جانبدارانہ اور مصلحانہ ہونا چاہیے۔ اس کے کردار میں معلمانہ اور منصفانہ پہلو غالب ہونا چاہیے حق شناسی اس کا شعار اور باطل شکنی اس کی پہچان ہونی چاہیے ۔لیکن اس کے برعکس آج الکٹرانک میڈیا ہویا پرنٹ میڈیا یاسوشل میڈیاہرایک اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مصروف عمل ہے خصوصاً ہمارے ملک میں میڈیاکاکردار مسلمانوں کے منفی پہلو کو اجاگر کرنے میں دن رات مصروف ہےاسلیےہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس کو معاشرے کو سنوارنے اوراسے صالح بنانے میں استعمال کریں خاص طور پر میڈیا نے نوجوان نسل کو سب سے زیادہ اپنی طرف مائل کیا ہے اس لئے نوجوانوں کی سوچ اور نفسیات کو سمجھنے کے لئے اس کا مثبت استعمال بہت ضروری ہے ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ قدرتی صلاحیت موجود ہے لہذا سوشل میڈیا کو موثر انداز میں نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنی چاہیےسوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے نوجوانوں کی زندگی میں غیر معمولی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ آج میڈیا فحاشی وعریانی کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل تباہ وبرباد ہورہی ہے ہماری نوجوان نسل کو مغربی کلچر، فلموں اور ان کے اداکاروں کے بارے میں پوری معلومات ہیں مگر انہیں اپنی روایات مذہب اور تہذیبی اقدار کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہیں۔دوسری طرف صرف انٹرنیٹ پر غیر اسلامی دنیا اپنی اجارہ داری قائم کر چکی ہے اس لیے وہ جو چاہے جیسا چاہے کرتی ہے غیر مسلموں نے اس طرح اپنا جال پھیلا رکھا ہے کہ ” ترقی پسند” روشن خیال اور مارڈن مسلمان ان کے دام فریب میں پھنستے چلے جارہے ہیں، اسلام کے نام پر غیر مسلم دنیا اپنے ویب سائٹس بنا رہی ہے، آپ کسی بھی کمپنی کے سرچ کو اسلامک ویب سائٹ کے بعد کلک کیجئے تو لاکھوں کی تعداد میں ویب سائٹس کے بارے میں نتیجہ سامنے آئے گاکہ اسلام کے نام پر اتنے ویب سائٹس انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ان سائٹس کی کثرت ہی نہیں بلکہ ان پر جو کام ہوئے ہیں،یا جس طرح کے پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں ان سے اندازہ لگانا ایک عام مسلمان ہی کے لیے نہیں، بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے بھی مشکل ہے کہ واقعی ویب سائٹس کو کسی مسلمان، مسلمان جماعت یا مسلمان ادارے نے بنایا ہے یا کسی غیر مسلم تحریک کا بنایا ہوا ہے۔انٹرنیٹ نے تو انسانیت کو بالکل ہی گمراہی کے دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ بےحیائ وعریانی کی اتنی بھرمار ہے کہ انسان انسانی اوصاف سے عاری ہوچکا ہے۔ ہمارابھی یہ حال ہے کہ جہاں کوئی بھی خبر سنی تو فوراً اسے بلا سوچے سمجھے شئیر کر دیا موبائل پر ویڈیو دیکھا اور اس کو دوسروں تک بھیج دیا ہم یہ ہرگز نہیں سوچتے ہیں کہ ہمارا یہ عمل ہماری قوم کو ہمارے مذہب کو کتنا نقصان پہنچائے گا اور دشمن کی کامیابی کے کتنے دروازے کھول دے گا ہر وہ خبر، ہر وہ میسیج، ویڈیواور ہروہ کلپ جس سے کسی مسلمان کی تصویر بگڑتی ہے، اس کو پھیلانے کی نہیں،اس کو چھپانے کی ضرورت ھوتی ہے،حدیث شریف میں آتا ہے جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی میں مددکی قیامت میں اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔لیکن افسوس کے اسلامی تعلیمات سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے ہم بجائے پردہ ڈالنے کے پردہ چاک کرنے میں لگے رہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات نقل کر دے۔”اس پر فتن دور میں میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے دینی، بے اعتقادی، دین بیزاری، اور احکام شریعت سے روگردانی نہایت تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جوجنگی ہتھیار سے بھی زیادہ خطرناک اور مؤثر ہے اس وقت ہم پر جو منظم طریقے پر یورش ہو رہی ہے اس میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا کا ہے جن مسائل کا تعلق مسلم پرسنل لاءسے ہے خاص طور پر اس کی منفی تشہیر کی جاتی ہے اخبارات اور ٹی وی چینلز والوں نےتو اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ہر وہ خبر جس میں اسلام کی کردار کشی کا کوئی پہلو اور ان کی بدنامی کا کوئی شوشہ ان کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس کو اچھالنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا معاشرے کا رہبر بھی ہوسکتا ہے جبکہ ہم اس کو معاشرے کی اصلاح اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اس کا صحیح استعمال کریں۔قابل مبارک باد ہےمسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم “مسلم پرسنل لاء بورڈ” جس نے اس نازک دور میں بر قت میڈیا کی افادیت واہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ایک شعبہ “سوشل میڈیا ڈیسک” کے نام سے قائم کیا جس کامقصد سوشل میڈیا کا مثبت استعمال، اسلام دشمن عناصر کی طرف سے شرعی قوانین کے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور مسلم معاشرے میں شریعت اسلامی پر عمل پیرا ہونےکے جذبے کو بیدار کرنا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں متعدد متحرک اور فعال احباب کو سوشل میڈیا کے فروغ کی ذمہ داری دی سونپی گئی ہےجو معاشرے میں شرعی احکامات کےتعلق سے پھیلاۓ جانے والے غلط پروپیگنڈوں کا قلع قمع کرتے ہیں۔ “سوشل میڈیاڈیسک” وہ واحد متحدہ پلیٹ فارم ہے جو مسالک و مکاتب سے بالاتر ہوکر ہر مکتبہ فکر کے مشہور و معروف علماء واکابرین کےاصلاحی مضامین،اور ان کے تقریروں اور تحریروں کے اقتباسات جاری کرتے ہیں، جن میں مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات کے اعتبار سے رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ بورڈ کے پیغام کے عنوان سے اکابرینِ بورڈ کی تقریروں اور تحریروں سے موجودہ حالات کے پیش نظراور وقت کی ضرورت کے اعتبار سے مختصر اقتباسات امیج کی شکل میں جاری کیے جاتے ہیں، ساتھ ہی ان کا ہندی، رومن، اردو، انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ بھیجا جاتا ہے۔” سوشل میڈیاڈیسک” تدریجاً اپنے کاموں کو بڑھا رہا ہے اور دن بدن اسکے دائرہ کار میں اضافہ ہوتاجارہا ہے اور بورڈ کے اغراض ومقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترقی کی طرف گامزن ہے۔یہ سب میر کارواں حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی نگرانی اور انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ آج ملک کے مختلف حصوں سے مخلص اور فعال علماء اور خواص کی ایک بڑی جماعت “آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ” کے “ڈیسک” سے جڑکر قانون شریعت کی حفاظت، وحدت امت اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے روک تھام کے لیے اپنے گراں قدر خدمات کے لئے کمر بستہ ہے ساتھ ہی اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اور دین کی تبلیغ و تفہیم جس منصوبہ بند طریقے پر مثالی خدمات “سوشل میڈیا ڈیسک” انجام دے رہا ہے وہ دیگر ملی تنظیموں کے لیے مشعلِ راہ ہےاب تو اس کے غیر معمولی مثبت اور انقلابی نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ دین متین کے تحفظ اور بیداری کے لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ویمنس ونگ کی ایک ٹیم بنائی ہے جو “بنت المسلم” کے نام سے کام کرتی ہے یہ شعبہ عورتوں کی اصلاح کے لئے ورکشاپ کا انعقاد کرتی ہے نیز ملت کی بیٹیوں میں دینی اور شرعی بیداری کا کام بھی انجام دیتی ہے۔لاک ڈاؤن جیسے ایمرجنسی حالات میں بھی “سوشل میڈیاڈیسک” نے امت کی اصلاح کے لئے آن لائن جمعہ کے خطبہ کا اہتمام کیا جس سے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا یہاں تک کہ ماں بہنوں نے بھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس خطبے سے مستفیض ہوئیں۔ الحمدللہ یہ شعبہ دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہے فی الوقت سوشل میڈیا کے ذریعے قرآنی آیات، احادیث، اکابرین کے ملفوظات کی امیجز، تکبیر مسلسل، اسلامی آداب، دینی ویڈیوز، قوانین اسلامی، اصلاحی مضامین، خطبہ جمعہ، دعوت و عمل کے عنوان سے پندرہ روزہ آن لائن خطاب اورحالات حاضرہ کے عنوان پراکابرین بورڈ کے انٹرویوز نشر کرتی ہے ۔جب سے ڈیسک سوشل میڈیا کے میدان میں اپنے صالح عمل اور مثبت کردار کے ساتھ سامنے آیا ہے اس کے بعد سے ہی بہت حد تک سوشل میڈیا کے فاسد پروگراموں کے اثرات کا انسداد واضمحلال ہوا ہےصرف دو سال کے ہی مختصر عرصے “سوشل میڈیا ڈیسک “نے میڈیا کے فاسد اور گندے اثرات کو بہت حد تک بے اثر کردیاہے اور اسلام دشمنوں نے جو بے دینی، بے اعتقادی، دین بیزاری اور احکام شریعت سے روگردانی کا کھیل سوشل میڈیا کے ذریعہ کھیل رہاتھا ڈیسک نے بروقت اس کامنہ توڑ جواب اسی کی زبان میں دیاہے۔ “سوشل میڈیا ڈیسک نے ” ایک شعبہ رسپانس کمیٹی کے نام سے شروع کیا ہے جو سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس سے آنے والے سوالات کا جواب دیتی ہے اس کمیٹی میں ملک کے باصلاحیت علماء،فقہاء اور دانشوران شامل ہیں ان حضرات کے حکیمانہ اور تسلی بخش جواب سے جہاں اسلام دشمنوں کے شکوک و شبہات دور ہو رہے ہیں وہیں امت مسلمہ بھی مستفیض ہورہی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا “سوشل میڈیا ڈیسک” اس بے سروسامانی کے باوجود نہایت مختصر مدت میں اپنا وجود منوا لیا ہے جس سے تیزی کے ساتھ عوام میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔ ڈیسک نظم نسق اور اس کے خدمات کو دیکھتے ہوئے اب تو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیادونوں نے اپنا تعاون “سوشل میڈیاڈیسک” کو پیش کرنا شروع کردیا ہے ۔ الحمد للہ علی ذلک

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ