غضنفر علی خاں
9 نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے رام مندر ۔ بابری مسجد کے انتہائی سنگین اور پیچیدہ تنازعہ پر جو فیصلہ سنایا، اس کو بشمول مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم فریقین نے عملاً تسلیم نہیں کیا ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ اس کے خلاف سپریم کورٹ ہی میں نظرثانی کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم برادری کے علاوہ بعض قانون شناس غیرمسلم فریقین نے بھی اس اقدام کی تائید کی ہے چنانچہ ڈسمبر کے دوسرے ہفتہ میں یہ اپیل یا درخواست سپریم کورٹ میں اپنے فیصلے پر ازسرنو غوروخوض کرنے کے لئے دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک فریق کی حیثیت سے مسلم برداری کا قانونی حق عدالت کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے۔ اس سے پہلے بھی مکمل بینچ کے بعض فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی اپیل داخل کی گئی ہے، اس لئے اگر ہندو فریق اور ان کی تنظیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ فیصلہ صد فیصد درست ہے اور اس کے خلاف نظرثانی کے اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو تنظیمیں فیصلے کے خلاف کوئی اقدام محض ہٹ دھرمی سے مسترد کررہی ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم فریقین نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کیلئے اپیل نہیں کی تھی جیسا کہ سپریم کورٹ سے فیصلے میں حکم صادر کیا ہے چونکہ مسلمان اپنے حق ملکیت کے لئے عدالتی جنگ کررہے ہیں جبکہ فیصلے کی روح یہ ہے کہ مسلمان بابری مسجد کے حق ملکیت سے دستبردار ہوجائیں اور اس کو دیئے گئے 5 ایکر زمین پر اپنے طور پر کوئی اور مسجد بنالیں۔ حق ملکیت سے دستبرداری کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ فیصلہ قابل قبول نہیں ہے اسی لئے مسلم پرسنل لا بورڈ نے بعد از گہرے غوروخوض کے اپیل برائے نظرثانی داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو قطعی حق بجانب ہے، اب یہ اور بات ہے کہ نظرثانی کی اپیل پر پھر سے عدالتی کارروائی ہوگی، لیکن وہی عدالت، وہی منصف اپیل کی سماعت کے لئے نشست کریں گے۔ عدالت کا مزاج اگرچہ کہ بالعموم وسیع النظری کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے لیکن حق ملکیت کے مسئلہ پر اس نے عدل و انصاف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب یہ کہنا کہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کوئی قانونی جرم ہے، ایک غلط اور فرضی بات ہوکر رہ جائے گی، لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسئلہ کے دیگر مسلم فریقین سے یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ یہ تمام فریقین اپے دعوؤں کی دلیل میں کونسی نئی بات کرنے والے ہیں۔ گزشتہ برسوں سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد اور مختلف عدالتوں سے گذرنے کے بعد سپریم کورٹ تک جب یہ بات پہنچی تو مسلم پرنسپل لا بورڈ اور دیگر فریقین نے کوئی نیا فارمولہ پیش نہیں کیا پھر اب جبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے
اور اس کے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں، کونسی نئی بات اپنے حق ملکیت کے بارے میں بورڈ پیش کرنے والا ہے، اس پہلو کا ایک اور بھی رُخ ہے کہ مسلمانوں نے بہت عرصہ پہلے عدالت کے فیصلے کو من و عن قبول کرنے کا بارہا اعلان کیا تھا۔ اب فیصلہ آنے کے بعد اس کے خلاف اپیل ان کے (مسلمانوں کے) موقف کو بدلنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ اسی عدالتی فیصلے کے بارے میں یہ کہا کہ فیصلے کو ایک کلیدی فریق قبول کرے گا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے حق سے محرومی کی کسی صورت میں بھی قبول کرلی جائے۔ عدالتیں عدل و انصاف کے مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں کہ وہ پوری طرح سے سے کام کرے گی۔ ایک اہم فریق جب فیصلے سے پوری طرح مطمئن نہیں ہو تو اس کو فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اسے قانونی حق حاصل ہے اور ایسا ماضی میں بھی دیگر عدالتی فیصلوں کے بارے میں ہوچکا ہے۔ صرف مسلمان فریق اس فیصلے کی مخالفت نہیں کررہا ہے تاکہ کچھ سیاسی پارٹیوں کے لیڈرس بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فیصلے میں نقائص موجود ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بی جے پی کے سابق لیڈر یشونت سنہا نے کھل کر کہا ہے کہ فیصلہ نقائص زدہ ہے تاہم انہوں نے مسلم برادری سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اس پر صبر و تحمل سے کام لیں۔ مسلم فریقین کے معروف وکیل راجیو نے فیصلے کے کچھ دیر بعد اپنا نقطہ نظر ظاہر کرتے ہوا کہا تھا کہ اس کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پیش کی جانی چاہئے چنانچہ یہی عمل مسلم پرسنل لا بورڈ نے اختیار کیا، انصاف کے حصول تک مسلمان اپنے آئینی، دستوری اور قانونی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ نظرثانی کی اپیل کسی بھی اعتبار سے قانون شکنی یا اپنے حق کے لئے مکرر درخواست پیش کرنے کو غیرآئینی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ایک حساس اور انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مسلمان اگر اسی طرح سے اپنے قانونی اور دستوری حقوق کے لئے خاموشی اختیار کرتے رہیں تو پھر ان کی شناخت خطرہ میں پڑجائے گی۔ اپنے کسی بھی حق کے لئے قانون کے دائرہ میں رہ کر جدوجہد کرنا صرف مسلمانوں ہی کا نہیں ہے بلکہ تمام ہندوستانیوں کا حق ہے، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے اپیل اور نظرثانی ہوئی درخواست تو سپریم کورٹ میں پیش کی جانی چاہئے۔ دوسری طرف دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو فریق کے دعویٰ کے علمبردار خود آپس میں متحدنہیں ہیں چنانچہ رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر کچھ ہندو تنظیموں میں ایک دوسرے کی مخالفت ہوگئی ہے، بعض مخصوص ہندو فریقین مندر کی تعمیر کا حق کسی اور ہندو تنظیم کو نہیں دینا چاہتے ہیں۔ آپس میں دَبے سُروں میں یہ اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔ خیر اس مسئلہ کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تنطیمیں آپس میں یوں ہی سرپٹول کرتی رہی ہیں اور رہیں گی تو کسی اور امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور یہ خدشہ جب بڑھ جائے گا کہ آپسی اختلافات کی وجہ سے مندر کی تعمیر میں تاخیر ہوجائے گی۔ مختلف مہنتوں کے درمیان اب یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کسی اور نہیں بلکہ خود ایک مخصوص ہندو تنظیم کو تعمیر نو کا کام سونپا جائے۔ اس اختلاف کے دوران اکھل بھارتیہ مہنتوں‘‘ کی ایک تنظیم نے مسلمانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اس تنازعہ کو پھر عدالتی اور پیچیدہ کارروائی کا شکار نہ بنائیں یعنی مسلمان فیصلے کے خلاف نظرثانی کرنے سے گریز کریں۔ ہندو فریقین خواہ کسی بھی باہمی اختلافات کے شکار رہیں ، اس سے مسلمانوں کو نہ تو تشویش ہونی چاہئے اور نہ ہی اس طرز عمل کے خلاف صف آراء ہونی چاہئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اسی تحمل اور صبر سے کام لینا چاہئے، جس کا مسلمان 27 برس سے مظاہرہ کرتے ہوئے آئے ہیں۔ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے ان کی شناخت کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ تاریخی حقیقت کو بچانا بھی مسلم برادری کا فریضہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم برادری نے کبھی ایسا کوئی رویہ اختیار نہیں کیا جس سے ملک کی داخلی صورتحال متاثر ہو، یہ خود مسلم برادری کا قابل تعریف کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایودھیا کے مسئلہ پر کبھی اور کوئی پرتشدد مظاہرہ مسلمانوں نے نہیں کیا جب کبھی اور جہاں کہیں بھی نظم و ضبط بگڑا یا بعض صورتوں میں مفلوج ہوکر رہ گیا، اس میں مسلمانوں کا کوئی عمل و دخل نہیں ہوا بلکہ ہندوتوا کی طاقتوں کی وجہ سے ایسے سنگین صورتحال ہے، وقفہ وقفہ سے ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں پیدا کی جاتی رہیں، اس کی سب سے بڑی شکل بی جے پی کے سینئر لیڈرس لال کرشن اڈوانی کی نکالی گئی ’’رتھ یاترا‘‘ سے ملتی ہے۔ اس یاترا میں امن کے تمام راستوں کو گویا مقفل کردیا تھا۔ سارے ملک میں کرفیو، پولیس فائرنگ اور ہندو۔ مسلم لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔ اس بدامنی کے نتیجہ میں بے شک بی جے پی کو کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ سیاسی عروج حاصل ہوا۔ اگر بی جے پی سے پوچھا جائے کہ آج کے بعد کس طرح اقتدار اس کو حاصل ہوا تو بی جے پی کا صحیح جواب تو یہی ہوگا کہ بے قصور مسلمانوں کے قتل و غارت گری ہی نے اس کو یہ عروج فراہم کیا ہے۔ جو کچھ گزشتہ 15 تا 20 برسوں کے دوران ہوا، وہ معاملات ملک کی نیک نامی اور شہرت کے لئے سخت اور ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوا، لیکن بی جے پی کو جو ہندوتوا طاقتوں کے ہاتھوں اس نے اپنی شناخت کیلئے پتلی کا روپ دھارا ہے، اب اس سے یہ توقع کرنا کہ اس کا اپنے کئے پر رَتی برابر پشیمانی ہوگی۔ انتہائی ناقابل قیاس بات ہے۔ نظرثانی کی اپیل اس پس منظر میں کی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اپیل کی سماعت کے بعد کیا نئی صورتِ حال سامنے آئے گی۔
