رام پنیانی
ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سماجی اُصولوں، دستور کے اقدار کی بار بار خلاف ورزیاں ہوتی جارہی ہیں۔ دلتوں پر بڑھتے مظالم، گائے۔بیف کے نام پر اقلیتوں کی لنچنگ نے گزشتہ چند برسوں کے دوران سماجی تانے بانے کو بُری طرح بدل دیا ہے۔ یہ ایک طرح فرقہ پرستی کی سیاست کے عروج کا حصہ ہے جو تنگ نظر، فرقہ وارانہ مذہبی شناخت پر یقین رکھتا ہے اور یہ اس کی تشریح کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس میں مزید ابتری آسکتی ہے کیونکہ 2019ء کے الیکشن میں مودی کو بڑا مینڈیٹ (خط ِ اعتماد) حاصل ہواہے۔ انتخابات کے مابعد جب وہ اقتدار پر واپس ہوئے، مودی نے اپنی انتخابی فتح کی تقریر میں بعض تبصرے کئے جو ایک طرف نہایت پریشان کن ہیں اور آنے والے حالات کی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔
مودی نے بیان کیا کہ اس انتخابی مہم نے سکیولرسٹوں کے دھوکہ پر مبنی دعوؤں کو بے نقاب کردیا ہے اور یہ کہ اب وہ ملک کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ اُن کے مطابق سکیولرازم بطور مکھوٹا ان انتخابات میں تباہ کیا جاچکا ہے اور یہ بھی کہ سکیولرازم اقلیتی خوشامدی کیلئے آڑ ہے۔ اُن کا بیان ہے کہ اقلیتوں کو سکیولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں نے فریب اور دھوکہ دیا ہے۔ یہ بیان محض کامیابی کے جوش میں نہیں دیا گیا۔ فرقہ پرستی کیلئے یہ سکیولرازم پر عمل کو ترک کردینے کا گہرا ایجنڈہ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس طرز سیاست میں چوک ہوئی اور کمزوریاں رہیں، جیسا کہ شاہ بانو فیصلہ کی منسوخی یا شیلانیاس کیلئے مقفل بابری مسجد کو کھول دینے کی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ یہ دعویٰ کہ اقلیتوں کی خوشامد کی گئی، سراسر جھوٹ ہے۔
گوپال سنگھ کمیشن، رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی رپورٹس ہمیں مسلم اقلیتوں کی بگڑتی حالت کے تعلق سے بتاتی ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے اندرون بعض بنیاد پرست عناصر کو بڑھاوا دیا گیا لیکن مسلم برادری کو بحیثیت مجموعی ایک طرف معاشی طور پر حاشیہ پر ڈال دیا گیا اور دوسری طرف سماجی عدم سلامتی سے دوچار کردیا گیا۔ ظاہری پہلو سے کہیں آگے بڑھ کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں سکیولرازم پر عمل میں کمیوں نے ہماری قوم کو پست کیا ہے؟ سکیولرازم کی تشریح اور ترجمانی مختلف طریقوں میں ہوئی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں ’سروو دھرم سمبھاوے‘ بڑی تشریح رہی ہے۔ نیز یہ کہ مملکت مذہب کے امور میں مداخلت نہیں کرے گی اور اہل مذہب کوئی حکم نہیں چلائیں گے نیز مملکتی پالیسی اس نظریہ کی بڑی عکاس رہی ہے کیونکہ سکیولرازم جمہوریت کے نظریہ کا کلیدی اور اہم حصہ ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔ سومناتھ مندر کی تزئین کاری کیلئے مطالبہ کے تناظر میں گاندھی جی نے کہا تھا کہ ہندو کمیونٹی اپنی خود کی مندر تعمیر کرنے کی اہل ہے۔ اور اُن کے شاگرد نہرو نے آنے والے وقتوں میں گاندھی جی کے نقش قدم پر عمل کیا۔ وہی نہرو نے ڈیمس، انڈسٹریز اور یونیورسٹیوں کو جدید ہندوستان کے منادر قرار دیا۔
گاندھی جی نے اپنے مخصوص انداز میں عمدگی سے بات رکھی اور کہا، ’’مذہب اور مملکت علحدہ رہیں گے۔ مجھے میرے مذہب کی قسم ہے، میں اس کیلئے مرنا پسند کروں گا۔ لیکن یہ میرا شخصی معاملہ ہے۔ مملکت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مملکت آپ (عوام) کی سکیولر بہبود کی ذمہ داری لے گا…‘‘ سماجی مفکر راجیو بھارگو نشاندہی کرتے ہیں کہ سکیولرازم ’’نہ صرف تعصب اور بین مذہبی غلبہ کی دیگر بدتر شکلوں سے لڑتا ہے جیسے عدم شمولیت (اخراج)، ظلم و ستم اور ہتک؛ بلکہ یہ مساوی طور پر داخلی مذہبی غلبہ یعنی ہر مذہبی برادری کے اندرون (خواتین، دلتوں، ناراض لوگوں کے) غلبہ کی مخالفت بھی کرتا ہے‘‘۔
سکیولرازم کا ہندوستان میں آسان سفر نہیں رہا ہے۔ یہ سامراج دور میں اُبھرتے طبقات کے ساتھ اُبھرا۔ وہ طبقات جو صنعت یانے، مواصلات اور عصری تعلیم جیسی تبدیلیوں کے ساتھ اُبھرے۔ انھوں نے جامع تبدیلیوں کے عمل کو ’’ہندوستان کی بطور قوم تعمیر‘‘ قرار دیا۔ اصل دھارے جن کی بھگت سنگھ، امبیڈکر اور گاندھی جی نے نمائندگی کی، ان سے سیاسی نظریہ اور بہتر سماج کیلئے جدوجہد کی بنیاد پڑی ۔ وہ ہندوستانی قوم پرستی کیلئے ڈٹے رہے۔ دوسری طرف زمینداروں اور بادشاہوں کے زوال پذیر طبقات جو سماجی تانے بانے میں تبدیلیوں اور اپنی سابقہ اجارہ داری سے محرومی سے متزلزل ہوگئے، وہ فرقہ پرستانہ سیاست میں ملوث ہونے لگے۔ یہ فرقہ وارانہ سیاست آگے چل کر مسلم فرقہ پرستی اور ہندو فرقہ پرستی میں منقسم ہوئی۔ انھوں نے ترتیب وار مسلم قوم اور ہندو قوم کا خواب دیکھا۔ جیسا کہ پروفیسر بپن چندر نشاندہی کرتے ہیں کہ فرقہ پرستی کسی مذہب کی برادری کو قوم باور کراتی ہے۔ ہندوستان میں یہ ہلکے، اعتدال پسند اور شدید فرقہ پرستی کے مختلف مراحل سے گزری ہے۔ اس کو ایسا سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک مذہب کے لوگوں کے یکساں مفادات ہوتے ہیں، جو دیگر مذہب کے مفادات سے مختلف رہتے ہیں۔ اور اس طرح مذہبی برادریاں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوجاتی ہیں۔
اس طرز کی سیاست ’دیگر‘ کمیونٹی کو اپنی برادری کیلئے خطرہ باور کرتی ہے۔ ساتھ ہی داخلی سماجی درجہ بند نظام کو فراموش کردیا جاتا ہے، کیونکہ ایسے گروپوں کا گہرا ایجنڈہ ذات اور جنس کی درجہ بندیوں کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں سکیولرازم پر عمل درآمد کی ایک کمزوری فرقہ پرستی کی طرف سے شدت سے مخالفت رہی ہے، جو بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میں مسلم فرقہ پرستی شروع سے ہی مضبوط رہی ہے؛ ہندوستان میں یہ گزشتہ لگ بھگ چار دہوں کے دوران مضبوط تر ہوئی ہے۔ اس کی طاقت انتشار پسندی پر مبنی ہے، جو فرقہ وارانہ تشدد کا شاخسانہ ہے۔ اس کے مسائل شناختی مسائل ہیں جیسے رام مندر، لوو جہاد، گھر واپسی اور مقدس گائے۔ بیف۔ یہی فرقہ پرستی ہے جو ملک کے سکیولر اقدار کو زائل کررہی ہے؛ یہی ہے جو سکیولرازم کو مناسب طور پر عمل میں لانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ایسے کئی عوامل ہیں جو فرقہ پرستی کی تقسیم پسند سیاست کو بڑھاوا دینے میں سازگار اور مددگار رہے ہیں، جن میں سکیولرازم کی تکمیل کے عمل کو مکمل نہ کرنا ہے، وہ عمل جس کے ذریعے زمیندار۔اہل مذہب کی جوڑی کی طاقت کو جمہوریت کی طرف بڑھنے والے سماج میں ختم کردیا گیا ہے۔ ہندوستان میں سامراج حکمرانی کے سبب قومی تحریک کو اپنی توانائی بنیادی طور پر سامراج حکمرانی کے خلاف مرکوز کرنا پڑا، جبکہ زمیندار۔ بادشاہ جن کو بعد میں بعض اعلیٰ متوسط طبقات کی جانب سے شامل کیا گیا، بدستور حاشیہ پر رہے، اور فرقہ پرستی کو ہوا دی، ملک کی تقسیم کا موجب بنے جو سماج کے منفی واقعات میں سے ہے۔ یقینا، ہندوستان کی تکثیریت اور تنوع جو اگرچہ موجودہ طور پر دباؤ میں ہے، سکیولر اقدار کو فرقہ وارا۰نہ سیاست کی نذر ہونے نہیں دیں گے، جسے فی الحال غلبہ حاصل ہے۔
[email protected]