سیاہ قوانین ملک اور آنے والی نسلوں کیلئے خطرناک : کے سی آر

   

سیاہ قوانین ملک اور آنے والی نسلوں کیلئے خطرناک : کے سی آر
اشتعال انگیز تقاریر سے گریز کرنے ارکان سے اپیل، اکبر اویسی کو اسپیکر نے ٹوک دیا، راجہ سنگھ نے بھی مداخلت کی

حیدرآباد۔/7 مارچ، ( سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اسمبلی کو یقین دلایا کہ شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر پر ایک روزہ مباحث کا اہتمام کرتے ہوئے ارکان کی رائے کے مطابق ایوان میں قرارداد منظور کی جائے گی۔ گورنر کے خطبہ پر تحریک تشکر مباحث کے دوران مداخلت کرتے ہوئے چیف منسٹر نے کہا کہ ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت قانون کی مخالفت کی ہے ۔ اس کے علاوہ قانون سے دستبرداری کیلئے ریاستی کابینہ میں قرارداد منظور کی گئی۔ حکومت شہریت قانون کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کرے گی۔ کے سی آر نے کہا کہ این آر سی اور این پی آر کے بارے میں ملک بھر میں احتجاج جاری ہیں اور عوام میں شبہات پائے جاتے ہیں۔ ان اُمور کا بھی مباحث میں جائزہ لیا جائے گا اور ارکان کی رائے کے مطابق قرارداد منظور کی جائے گی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا لازمی حصہ ہے۔ شہریت قانون سے ملک بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ شہریت قانون پر مباحث ایک دن میں مکمل نہیں ہوسکتے۔ شہریت قانون پر مباحث کا مطلب قومی سطح پر ملک کے مستقبل کے بارے میں اظہار خیال کرنا ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی بھی اپنی رائے رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے اسپیکر سے خواہش کی کہ شہریت قانون پر مباحث کے دوران تمام ارکان کو موقع دیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہریت قانون پر ہر ایک کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ بھی تفصیلی بات چیت کرسکتے ہیں۔ سی اے اے ایک انتہائی متنازعہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس پر تفصیلی مباحث کی گنجائش ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ این آر سی، این پی آر اور شہریت قانون پر ہر پارٹی کی اپنی جداگانہ رائے ہوسکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہم نے قانون کی مخالفت کی اور اب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کیلئے مرکز تک اپنی رائے پہنچائی جائے گی۔ ریاست کی رائے سے مرکز اتفاق کرے گا یا نہیں بعد میں دیکھیں گے۔ انہوں نے نئی دہلی فسادات پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ 40تا 50 افراد کی ہلاکت سنگین مسئلہ ہے۔ تمام کی رائے حاصل کرنے کے بعد قرارداد کی شکل میں مرکز کو ریاست کے احساسات سے واقف کرایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاہ قوانین پر ملک بھر میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ اور یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاریہ سیشن میں مباحث کیلئے وقت کا تعین کیا جائے گا۔ کے سی آر نے کہا کہ پانچ تا چھ ریاستوں کی اسمبلیوں نے شہریت قانون کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔ مرکز مانے یا نہ مانے لیکن ہم اپنا موقف قرارداد کے ذریعہ بیان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ متنازعہ قوانین کے بارے میں ملک میں پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ارکان سے اپیل کی کہ وہ کشیدگی میں اضافہ کا سبب نہ بنیں اور اشتعال انگیز بیانات سے گریزکریں۔ ملک بھر میں متنازعہ قوانین پر بحث جاری ہے کیونکہ یہ مستقبل اور آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے ارکان سے اپیل کی کہ وہ متنازعہ بیانات سے گریز کریں۔ اسپیکر پوچارم سرینواس ریڈی نے کہا کہ شہریت قانون اور دیگر اُمور پر مباحث کیلئے علحدہ دن مقرر کیا جائے گا۔ قبل ازیں مجلس کے لیڈر اور قائد اپوزیشن اکبر اویسی نے تحریک تشکر پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف اظہار خیال کیا اور مذکورہ قوانین کے نقصانات بتانے کی کوشش کی جس پر بی جے پی رکن راجہ سنگھ نے سخت اعتراض کیا اور کہا کہ گورنر کے خطبہ میں جو اُمور شامل نہیں ہیں اس پر بحث نہیں کی جاسکتی۔ اسپیکر پوچارم سرینواس ریڈی نے اکبر اویسی کو بار بار ٹوکتے ہوئے مشورہ دیا کہ صرف گورنر کے خطبہ تک اپنی تقریر کو محدود رکھیں۔ شہریت قانون ، این آر سی اور این پی آر پر علحدہ بحث ہوگی اور یہ گورنر کے خطبہ کا حصہ نہیں ہے۔ اسپیکر کے بعد چیف منسٹر کے سی آر نے بھی مجلسی رکن کو سیاہ قوانین کا احاطہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جس پر اکبر اویسی نے تقریر کا موضوع تبدیل کردیا۔ بی جے پی رکن اپنی نشست سے اُٹھ کر اپوزیشن لیڈر کی تقریر میں بار بار مداخلت کرتے رہے لیکن ایوان میں موجود مجلس کے ارکان میں سے کوئی بھی اپنے قائد کی تائید میں کھڑا نہیں ہوا، اور خاموش بیٹھے رہے۔ اکبر اویسی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سیکولر طاقتوں کو متحد ہوکر موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کی اپیل کی تاکہ دستور کا تحفظ ہو۔ انہوں نے کہا کہ سیاہ قوانین کے ذریعہ ملک کو مذہب کے نام پر باٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ قوانین صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ غریبوں اور ناخواندہ افراد کیلئے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص سوچ اور نظریات ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک دستور سے چلتا ہے نظریات سے نہیں اور ایسے عناصر سے خوفزدہ یا ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ دہلی میں فسادات کرائے گئے جس میں معصوموں کی جانیں گئی ہیں۔