’’ حیدرآباد کی سرزمین پر ایسے لاشعورے لاغیرے ہیں جو شادی کے نام پر ایک ایک رات میں ایک ایک کروڑ روپئے خرچ کرتے ہیں، ایسے مجرم ہیں جو بے شمار بچیوں کی شادیوں پر روک لگاکر اپنی بچی کی شادی شہزادی کی شادی کے طور پر دکھاکر اپنے پیسے جہنم میں پھینکتے ہیں اور خود اپنی نعشوں کو جہنم میں پھینکنے کی شادی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شادی میں مت جایئے، اس لئے کہ وہ بے غیرتوں بے شرموں و بے حیاؤں اور اس ملت کو نقصان پہنچانے والے مجرموں کی شادی ہے ،اے مجرمو! کچھ خدمت خلق کی طرف بھی توجہ کرلو ،کہئے ان سے ان کے کھانے کا بائیکاٹ کرو ،کہنا تمہارا ایک نوالہ ہمارے لئے حرام ہے۔ لیکن تمہیں دعوت دینا فرض تھا اس لئے ہم آئے!! دو باتیں کہہ کر جارہے ہیں۔ ‘‘
حیدرآباد 16 فروری (سیاست ڈاٹ کام) سید سلمان ندوی ملک کے اُن علماء میں شامل ہیں جو اپنی جرأت و بے باکی کیلئے جانے جاتے ہیں۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حدیث کے استاذ ہیں۔ وہ کئی ایک کتب کے مصنف اور دارالعلوم سید احمد شہید کے ناظم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جمعیت شباب الاسلام کے صدر بھی ہیں۔ وہ کئی ایک قومی و عالمی سطح کی اسلامی تنظیموں و اداروں کے ذمہ داروں میں شامل ہیں۔ وہ اصلاح معاشرہ کیلئے کافی فکرمند رہتے ہیں۔ انھیں اس بات پر بہت زیادہ افسوس ہے کہ ملک بالخصوص حیدرآباد میں مسلمان اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی میں بہت زیادہ اسراف کرتے ہیں۔ مولانا سید سلمان ندوی کا ایک ویڈیو آج کل یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوا ہے جس میں اُنھوں نے ان دولت مندوں پر شدید تنقید کی ہے جو اپنی اولاد کی شادیوں پر لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے بیان کو یہاں من و عن پیش کیا جارہا ہے۔ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ تبدیلی حیدرآباد میں لانی زیادہ ضروری ہے۔ کیوں کہ یہاں زیادہ مجرم ہیں۔ یہاں دولت کے نشہ میں مخمور زیادہ انسان ہیں۔ ان سے صاف کہہ دو کہ تمہاری یہ مسرفانہ زندگی اللہ کے اعلان کے مطابق تمہیں شیطان کا بھائی بنارہی ہے۔ اس آیت کو بڑے بڑے بیانر پر لکھ دیجئے اور اس کے بعد جہاں بھی شادی مسرفانہ ہورہی ہیں وہاں یہ بیانر لگادیجئے۔ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے آپ احتجاج کرتے ہیں، مجاہدے کرتے ہیں، بیانر اور پلے کارڈ لئے کھڑے رہتے ہیں۔ ایسے ہی جہاں اس طرح کی شادیاں ہوتی ہوں اپنے تین چار آدمیوں کو بھیجئے جو بیانر لئے کھڑے خاموش ہوں۔ یہ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اپنی زبان سے نہیں کہتے۔ قرآن کی آیت کو سامنے رکھئے۔ ’’فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ اللہ کہہ رہا ہے ہم نہیں کہہ رہے ہیں۔ آج رات نکلئے گا جہاں بھی ہالس میں شادیاں ہورہی ہیں آپ نے تو ابھی اپنے بیانر لگائے ہیں اس کے بعد آپ رخصت ہوجائیں گے اور اس کے بعد یہاں شادی ہوگی ہوسکتا ہے کہ آپ اس ہال میں شادی میں نظر آئیں گے۔ اس لئے قسم کھالیجئے کہ اب اس ہال میں کھانے کی محفل میں نہیں آنا ہے کسی حال میں نہیں جانا ہے جہاں فضول خرچی اور سنت کے خلاف عمل ہورہا ہے نہیں جانا ہے اور گیٹ پر کھڑے ہونا فقیروں کی طرح درویشوں کی طرح بیانر لیکر یہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب مہم ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ مہم نہ چلانے سے فتنہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ آج برائیاں جو ہیں بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہیں اور آپ رو رہے ہیں تبصرہ کرتے ہیں ایک تقریر کرتے ہیں اس کے بعد چونکہ ہوتا نہیں اور آپ ہی میں سے لوگ شادی میں شریک ہوتے ہیں مبارکباد دیتے ہیں اور دعوت نامے قبول کرتے ہیں، بڑے نمایاں ہوتے ہیں اسٹیج پر بٹھائے جاتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو نکاح پڑھاتے ہیں کچھ احمق و بے وقوف ایسی مسرفانہ شادیوں میں نکاح پڑھانے آتے ہیں۔ مسرفانہ شادی ہورہی ہے، ابلیسی اور شیطانی ہورہی ہیں اور مولانا بیٹھ کر آیتیں پڑھ رہے ہیں، نکاح پڑھارہے ہیں۔ افسوس ہے ایسے مولانا پر۔اس طرح نکاح مت پڑھایئے صاف کہہ دیجئے کہ جب نکاح پڑھایا جائے گا تو اسلام کے اُصول اور سنت کے اُصول کے مطابق پورا انتظام ہوگا۔ مذاق نہیں اڑے گا؟ اسٹیج پر چند لوگ بیٹھے ہوں، قرآن کی چند آیات پڑھ دی جائیں اور باہری اختلاف ہو، گانے ہوں بجانے ہوں اور کھانے پھینک رہے ہوں اور لوگ بندروں کی طرح کھارہے ہوں۔ یہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ یہ چاہتے ہوں کہ اسلام کے مطابق نکاح ہوتو ان شرائط کے ساتھ ہوگا اور پوری بات ہوگی اور وہ بات تبلیغ کے جلسے کی طرح سننی پڑے گی ورنہ سلام وعلیکم ! کسی پنڈت کو بلوا لیجئے،پھیرے لگوالیجئے۔ یہ فیصلہ کیجئے تب تو ٹھیک ہے ورنہ آپ اپنا مذاق بناتے ہیں۔ آپ خود اسلامی دعوت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ آپ خود Duplicating کرتے ہیں۔ آپ خود Contracdictions پیدا کرتے ہیں۔ آپ خود قول کو عمل اور عمل کو قول سے کاٹتے ہیں۔ صبح و شام یہی تماشہ ہورہا ہے اس لئے اس نہج کو بدل دینا پڑے گا اور ایک نئے نظام کو برپا کرنے کے لئے پوری قوت استعمال کرنی ہوگی۔ غریب پیسہ دے گا آپ کو غریب سے کام ہوگا۔ اگر امیر ہاتھ کھینچتے ہیں تو ان سے کہئے کہ ہاتھ کھینچ لو تم شیطان کے بھائی ہے ہمارا تم سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے اور یہ بات صرف آپ کے کہنے سے نہیں ہوگی۔ ملت اسلامیہ کے جو علماء ہیں جو مبلغین و داعی ہیں اور جو چاہتے ہیں کہ اُمت میں اصلاح ہو تو ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا ثبوت دیں اور اس کا مظاہرہ کریں۔