امجد خان
پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں زبانوں، کھانوں ( پکوان کی ڈشس ) ، تہذیب ، سماجی اُصول و قواعد اور تاریخ وغیرہ کے لحاظ سے کافی باتیں مشترکہ پائی جاتی ہیں یعنی پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں کافی مماثل پائی جاتی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی فرق کو سمجھنے کیلئے جنوبی ہند کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اُس وقت ڈیفالٹ اور دیوالیہ ہونے کے دہانہ پر تھا جب 2022 میں اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خاں کو اقتدار سے بیدخل کرکے فوج نے اقتدار پر اپنی گرفتار مضبوط کرلی تھی۔
اگرچہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا لیکن اسلام آباد اپنی معیشت کی بحالی کیلئے مسلسل عطیہ دہندگان پر انحصار کرتا رہا۔ اقتصادی تباہی کی دوہری مار اور مخلوط حکومت نے پڑوسی ملک ہندوستان کے بار بار حوالوں کے ساتھ ایک بحث کو ہوا دی۔ ہندوستان کے مقابل آخر پاکستان کے ساتھ کیا غلط ہوا، وہ عام سوال ہے جو اکثر پوچھا جاتا ہے۔ یہ سوال خاص طور پر اس لئے بھی بار بار پوچھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان نے 1990 کی دہائی تک اپنے مشرقی پڑوسی کی بہ نسبت معاشی شعبہ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مذکورہ سوال کا جواب سارے ہندوستان کو دیکھنے اس کا جائزہ لینے میں ہوسکتا ہے شروع کرنے والوں کیلئے پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں خطوں میں زبانوں، غذائی اشیاء ( پکوانوں ) ، تہذیب و ثقافت ، سماجی اُصولوں اور تاریخ وغیرہ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کیلئے جنوبی ہند کو سمجھنا بہت ضروری ہے جیسا کہ ہم نے سطورِ بالا میںلکھا ہے جنوبی اور مغربی ہندوستان پچھلے 40 برسوں میں مینوفیچکرنگ اور ہائی ٹیک مراکز کے طور پر اُبھرے اور ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کی معاشی ترقی کو آگے بڑھایا ہے، ہارٹ لینڈ ریاستیں جیسے اُتر پردیش جہاں سے پاکستانی حکمراں اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ آیا تھا ترقی کے معاملہ میں یہ ریاست ( یو پی ) ہندوستان کی جنوبی ریاستوں سے بہت پیچھے ہے، ان جنوبی ریاستوں کا فروغ انسانی وسائل کے اعتبار سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُترپردیش جو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے اس سے جنوبی ہند کی ریاستیں ہرلحاظ سے بہت آگے ہیں چاہے وہ خواتین میں خواندگی کی اعلیٰ شرح کا معاملہ ہو یا نومولود بچوں میں کم شرح اموات یا پھر عوام کی بڑی عمر ( بڑی حیات ) وغیرہ ہر شعبہ میں جنوبی ہند کی ریاستیں بہت آگے ہیں۔
اگر ہم صحت مند اور تیزی سے آگے بڑھتی معیشت کی بات کرتے ہیں تو اس کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبی ہند کا نظام تعلیم معیاری ہے اس کے ساتھ ہی جنوبی ہند کی ریاستوں میں بہتر حکمرانی اور بہت زیادہ سماجی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بہتر حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خطہ میں بہترین و معیاری اسکولس اور اسپتال ہوں، طلبہ میں ترک تعلیم کی شرح کم ہو۔ جنوبی ہند نے قومی معیشت اور مرکزی حکومت کی آمدنی ( ریوینیو) میں بہت زیادہ اہم رول ادا کیا۔ ان ریاستوں میں لوگ صحتمند، بہتر خوراک کے حامل، بہت زیادہ خوشحال اور تعلیم یافتہ ہیں۔ جون 2021 میں ’دی ٹیلیگراف ‘ میں رامچندر گوہا کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے مدلل انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ جنوبی ہندوستان نے 1991 کی فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کا زبردست فائدہ اٹھایا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں زیادہ مہارت کی حامل اور صحتمندانہ افرادی قوت موجود تھی اور رامچندر گوہا نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ فیکٹریوں، انجینئرنگ کالجوں، سافٹ ویر پارکس اور فارما سیوٹیکلس یونٹس کا جنوبی ہند کی ریاستوں جیسے ٹاملناڈو وغیرہ میں بول بالا رہا جبکہ اُتر پردیش اور بہار جیسی ریاستیں فرقہ وارانہ اور ذات پات کے جھگڑوں و فسادات کے شکنجہ میں کسی رہی ‘ نتیجہ میں وہ ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے سے قاصر رہیں۔ رامچندر گوہا نے مزید لکھا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے شروع کردہ رام جنم بھومی تحریک اور اس کی تباہ کاریاں جنوبی ہند میں زیادہ نہیں دیکھی گئیں۔ رامچندر گوہا کے مطابق جنوبی ہند میں کسانوں کی ذاتوں سے کہیں زیادہ صنعت کار ہیں یعنی کسان ذاتوں سے زیادہ صنعت کاری میں مشغول ہیں، یہاں پاکستان کے کسان برادری کی طرح نہیں۔ پاکستان میں پنجابی کسان برادری نے فوجی حکمرانی کے طویل دور کے ذریعہ ریاست کے امور یا معاملات میں اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور اس کے عوام کی بد قسمتی یہ رہی کہ وہاں جمہوریت کم اور فوجی حکمرانی بہت زیادہ رہی۔ پاکستان کی تجارتی و کاروباری برادریاں جیسے گجراتی اس دلیل کو تقویت دیتے ہیں۔ پاکستانی گجراتیوں نے زیادہ تر توجہ کراچی پر مرکوز کررکھی ہے اور وہ ملک کی معیشت میں غیر متناسب حصہ ادا کرتے ہیں۔ اپنی انگریزی کتاب ” Karachi; Ordered Disorder and the Struggle for the City” میں لارینٹ گے لیر نے لکھا کہ کراچی میں کام کرنے والی فرمس نے 1960 کے دہے میں پاکستان کی 96 فیصد نجی معیشتوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نجی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے 80 فیصد اثاثے ان صنعت کاروں کے قبضہ میں تھے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی 46 بڑے صنعتی گروپس میں سے 36 عام طور پر گجراتی ، میمن، کھوجہ اور بوہرہ تجارتی برادریوں کے ہاتھوں میں تھے۔ جہاں تک گجراتی تجارتی برادریوں کا سوال ہے۔ یہ پاکستان کی آبادی کا 0.4 فیصد ہے لیکن یہ لوگ ملک کے 43 فیصد صنعتی سرمایہ پر اپنا تسلط رکھتے ہیں۔ گے یر کی کتاب کے مطابق صرف حلائی میمن ان صنعتوں میں سے 27 فیصد کے مالک ہیں۔
مثال کے طور پر صنعتی گروپ ہاوز آف حبیب جس کے بانیوں کا تعلق ہندوستانی ریاست گجرات کے علاقہ جام نگر سے تھا دیگر چیزوں کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی بینک چلاتے ہیں۔ مندی والا بھی اس تہذیب و تمدن سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ملٹی پلکس شعبہ کو آگے بڑھانے کی قیادت کی۔ دوسری طرف گجراتی فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مالک ہیں، کار سازی کے شعبہ میں چھائے ہوئے ہیں ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے اسٹاک ایکسچینج پر اپنا تسلط رکھتے ہیں۔ گجراتی زبان بولنے والے پارسی یعنی بھنڈاراس کی ملکیت میں Murree Brewery شامل ہے اور ان کا شمار پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکس ادا کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ ایک اور پارسی خاندان AVARIS پاکستان، دوبئی اور کنیڈا بھر میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کی ملکیت رکھتے ہیں۔ ہاں! جہاں تک سیاسی کلچر کا سوال ہے کراچی کا سیاسی کلچر اُتر پردیش اور بہار کے سیاسی کلچر کی طرح ہی ہے کیونکہ پاکستان کے میٹرو پولس کی سیاست میں اُتر پردیش اور بہار سے ہجرت کرگئے مہاجرین چھائے ہوئے ہیں۔
نواز شریف جو کشمیری نژاد تجارتی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں پاکستانی سیاست میں عملی طور پر تجارتی انداز متعارف کروایا خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں ان کی پالیسی اس کا بین ثبوت ہے۔ نواز شریف کو ہند۔ پاک ثقافتی تعلق کو مستحکم کرنے کا چمپین کہا جاتا ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے سنگین مسائل و تنازعات کو پس پشت ڈال کر باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ ینے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ زمیندارانہ و جاگیر دارانہ رجحان نے بھی پاکستان کو نقصان پہنچایا جبکہ ہندوستان میں مابعد آزادی زمیندارانہ و جاگیر دارانہ نظام کو ختم کردیا گیا۔ پاکستان میں زمینداری و جاگیردارانہ نظام کے فروغ نے جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کیا۔ زمینداراوں نے اپنی معاشی طاقت کو سیاسی طاقت بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ جنوری 2018 میں ’ دِی اکنامسٹ ‘ میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ زمینداروں کی طاقت، اثر و رسوخ کمزور پڑتا جارہا ہے۔ پنجاب میں نصف سے زائد قانون سازوں کو (پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ) نشستیں اپنے عزیز و اقارب سے وراثت میں ملی ہیں یعنی ان کی نشستیں موروثی ہیں۔ یہ ہندستانی پارلیمنٹ کی شرح سے دوگنی سے زیادہ ہے۔صحافی بدر عالم نے ’ دِی اکنامسٹ‘ کو بتایا کہ مکار زمینداروں نے ترقی کی بلندیوں پر پہنچے صنعتی طبقہ میں خود کو ڈھالا یا ان خاندانوں سے اپنے رشتے جوڑے ، اور جب عمران خان نے ملک کی فوج کی جانب سے اقتدار سے بیدخل کئے جانے سے پہلے ملک میں پائی جانے والی سیاسی جوں کی توں حالت بدلنی چاہی لیکن ان کی کوششیں ناکام رہیں۔ اس کے برعکس جنوبی ہند میں منصفانہ سماجی نظام پایا جاتا ہے۔
جنوبی ہند کی خاص بات یہ ہے کہ شمالی ہند کی بہ نسبت ملک کے اس خطہ میں سب سے پہلے برہمنوں کے تسلط کو چیلنج کیا گیا۔ برہمنوں کو ذات پات پر مبنی سماجی درجہ بندی میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ سری نارائن گرو اور ای وی راما سوامی ناسکر المعروف پیریار جیسے مفکرین نے مساوات پر مبنی معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردارا ادا کیا۔ جنوبی ہند کی افرادی قوت میں خواتین کو متناسب نمائندگی حاصل ہے جس کی وجہ سماجی اصلاحات ہیں۔ اس خطہ میں کم عمر کی شادیوں کیلئے انہیں مجبور نہیں کیا جاتا۔ زیورِ علم سے انہیں آراستہ کیا جاتا ہے، اپنے شریک حیات کے انتخاب کا انہیں اختیار حاصل ہے۔ ان کے بچے بھی کم ہوتے ہیں۔ ذاتی اثاثے ہوتے ہیں اور مَردوں کے ساتھ محنت کرنے یا کام کرنے کاماحول بھی صاف ستھرا ہوتا ہے۔