شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف جلسوں کی اجازت سے انکار

   

محمد علی شبیر کا احتجاج، پرامن احتجاجیوں کی گرفتاری اور لاٹھی چارج کی مذمت
حیدرآباد ۔ 13 ۔ جنوری (سیاست نیوز) تلنگانہ قانون ساز کونسل کے سابق اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر نے متنازعہ شہریت قانون ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شہر میں احتجاج اور جلسوں کے سلسلہ میں پولیس کے رویہ کی مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت تلنگانہ میں سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر مرکزی حکومت کو خوش کرنے کیلئے تلنگانہ میں جلسوں اور احتجاج کی اجازت سے گریز کر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی حلیف جماعت کو جلسوں کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ شہریت قانون کے خلاف بائیں بازو جماعتوں کے احتجاجی جلسہ کو اجازت نہیں دی گئی ۔ حالانکہ یہ جلسہ کسی مصروف شاہراہ پر نہیں بلکہ فنکشن ہال میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملین مارچ کے پرامن انعقاد کے باوجود منتظمین اور شرکت کرنے والوں کے خلاف مقدمات دائر کرتے ہوئے ہراساں کرنے کیلئے نوٹسیں جاری کی گئیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ریالی کی اجازت نہیں دی گئی اور اجازت کی خلاف ورزی پر مقدمات درج کئے گئے ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ حکومت کی حلیف جماعت کو عیدگاہ میرعالم سے شاستری پورم تک ریالی کی اجازت نہیں دی گئی تھی ، اس کے باوجود عوام عیدگاہ سے ریالی کی شکل میں قائدین کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچے لیکن پولیس نے منتظمین کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں احتجاج میں یکساں نوعیت کے باوجود پولیس کا جانب دارانہ رویہ قابل مذمت ہے۔ انہوں نے شہر میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف پرامن احتجاجیوں پر پولیس لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کی مذمت کی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ کل رات ٹولی چوکی میں سینکڑوں کی تعداد میں خوا تین نے پرامن احتجاج منظم کیا لیکن پولیس نے احتجاجیوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا ۔ احتجاج میں شریک نوجوانوں اور خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے منتشر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو طاقت کے استعمال کا اختیار اسی وقت حاصل ہے جب امن و ضبط کا مسئلہ پیدا ہو۔ یہاں تو پرامن انداز میں احتجاج کیا جارہا تھا اور ٹریفک کیلئے بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن پولیس نے احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ حیدرآباد میں کئی مقامات پر احتجاجیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی شکایات ملی ہے۔ جمہوریت میں پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے اگر احتجاجی جلسوں اور دھرنے کی اجازت سے انکار نہ کیا جاتا تو عوام اس طرح سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہ کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر حکومت کا موقف ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ میں اگرچہ شہریت قانون کی مخالفت کی گئی لیکن کے سی آر عوام کے درمیان کھل کر مخالفت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی کے سی آر شہریت قانون کے خلاف ہیں تو پھر کیرالا کی طرح اسمبلی میں قرار داد منظور کی جانی چاہئے ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ شہریت قانون اور این آر سی پر کے سی آر کا دوہرا موقف بے نقاب ہوچکا ہے اور وہ بی جے پی حکومت کی تائید کر رہے ہیں۔ محمد علی شبیر نے اقلیتوں سے اپیل کی کہ وہ بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کو سبق سکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس کو ووٹ دینا دراصل بی جے پی کو ووٹ دینے کے مترادف ہے کیونکہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے ہر فیصلہ کی ٹی آر ایس تائید کر رہی ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ محمد محمود علی کی خاموشی پر اعتراض کیا اور کہا کہ ملین مارچ کے منتظمین اور شہر میں دیگر مقامات پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات سے دستبرداری کیلئے عہدیداروں کو ہدایت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج اور پولیس لاٹھی چارج پر وزیر داخلہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ انہوںنے آج تک مقدمات سے دستبرداری کیلئے مسلم تنظیموں سے ملاقات تک نہیں کی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ وزیر داخلہ کو فوری مداخلت کرنی چاہئے تاکہ احتجاجی خواتین پر جگہ جگہ پولیس لاٹھی چارج کا سلسلہ بند ہو۔