ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے جمعے کے روز کہا ہے کہ انہیں آئندہ ہفتے ماسکو میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کسی اہم پیش رفت کی امید نہیں ہے، کیونکہ ان کے بقول ‘ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک طویل عمل ہے’۔خبر رساں ادارے رائٹرز نے روسی خبر رساں اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس کے عہدے دار ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ طالبان نے اگلے چہارشنبہ سے شروع ہونے والی اس بات چیت میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وفد میں کون سے ارکان شامل ہوں گے۔’آر آئی اے نیوز ایجنسی‘ نے کابلوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ ”ہمیں کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک طویل عمل ہے”۔کابلوف نے مزید کہا کہ اجلاس سے ایک روز قبل، روس، امریکہ، چین اور پاکستان کے عہدیدار ماسکو میں علیحدہ سے ایک ملاقات کریں گے، تاکہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال کے بارے میں کوئی متحدہ لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے۔روس نے مارچ میں افغانستان کے معاملے پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان شریک ہوئے تھے، جس میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں لڑائی میں شامل تمام فریقوں سے کہا گیا تھا کہ وہ تشدد کی کارروائیاں بند کر کے امن سمجھوتا طے کریں۔اس وقت سے اب تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالہ جنگ ختم کی اور افواج کا انخلا کیا، طالبان اقتدار پر قابض ہوئے اور گزشتہ حکومت معطل ہوئی۔ روس کو اب یہ فکر ہے کہ کہیں اسلام پسند عسکریت پسندی کا اثر اس وسیع تر خطے میں نہ پھیل جائے، جس میں سابق سویت یونین کی وسط ایشیائی جمہوری ریاستیں واقع ہیں، جنھیں روس اپنے دفاع کی جنوبی سرحد خیال کرتا ہے۔ادھر، طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ترکی کے سرکاری دورے پر ہے جہاں اس نے ترک عہدے داروں سے باہمی امور اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تعاون کے لئے بات چیت کی ہے۔انقرہ سے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وفد کی قیادت طالبان کے نامزد کردہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں، جنھوں نے اپنے ترک ہم منصب مولود کاوش اوگلو سے بات چیت کی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے طالبان، امریکہ اور یورپی یونین کے 10 ملکی وفد سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کر چکے ہیں۔