’’بہن آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘
کابل : ’’بیٹی کہاں ہو؟ جلدی گھر واپس آجاؤ، طالبان شہر میں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔ یہ فقرے افغان خاتون صحافی بہشتہ ارغند کی والدہ کے ہیں جو 15 اگست کی دوپہر کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد خوف زدہ ہو گئی تھیں اور انہیں بیٹی کی زندگی کے بارے میں فکر لاحق تھی۔بہشتہ ارغند افغان ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’طلوع‘ کے ساتھ وابستہ ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے صحافت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔اتوار کو دارالحکومت کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ کسی ذاتی کام کے سلسلے میں بازار گئی تھیں جب انہیں گھر سے کال موصول ہوئی۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بہشتہ نے کہا کہ ان کے گھر والوں کے خوف کا عالم دیدنی تھا کیوں کہ طالبان ان کے گھر کے پاس سے ہی گزر رہے تھے۔ان کے بقول، یہ سب کچھ افغان عوام کے لیے حیرت انگیز تھا کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ طالبان شہر سے بہت دور ہیں اور ان کی توجہ دیگر علاقوں کی جانب ہے۔ان کے مطابق افغان عوام کو یہ توقع بھی تھی کہ اگر حالات مزید سنگینی اختیار کرتے ہیں تو حکومت اور طالبان جنگ بندی یا کسی سمجھوتے پر متفق ہو جائیں گے۔ان کے مطابق افغان عوام کو یہ توقع بھی تھی کہ اگر حالات مزید سنگینی اختیار کرتے ہیں تو حکومت اور طالبان جنگ بندی یا کسی سمجھوتے پر متفق ہو جائیں گے۔افغان صحافی نے کہا کہ فون کال موصول ہونے کے بعد انہوں نے گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچ کر ٹیلی ویژن آن کیا اور سوشل میڈیا ویب سائٹس دیکھیں تو طالبان تمام اطراف پھیل چکے تھے جس کے بعد ان کے خوف میں یقینی طور پر اضافہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے سابقہ دور کے قصے کہانیاں سنی تھیں اور ایک خاتون ہونے کے ناطے ان کا خوف زدہ ہونا حقیقی تھا۔بہشتہ ارغند کے مطابق، طالبان نے ان کے ٹیلی ویژن اسٹیشن کا بھی دورہ کیا تھا اور انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا کہ وہ اپنی نشریات جاری رکھ سکتے ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنے ادارہ سے رابطہ کیا اور منگل کو ڈیوٹی پر حاضر ہوئیں۔انہوں نے بتایا کہ دفتر کا ماحول اگرچہ زیادہ خوشگوار نہیں تھا تاہم خراب بھی نہیں تھا۔ صبح سویرے انہوں نے ’طلوع نیوز‘ کے خبرنامے کے ساتھ آغاز کیا۔بہشتہکے مطابق صبح 9بجے سے 12 بجے تک وہ پروگرام ’نیمہ ورز‘ کی باقاعدگی سے میزبانی کرتی ہیں۔ جس میں حالاتِ حاضرہ، سیاسی امور پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور اس پروگرام میں مہمان بھی بلائے جاتے ہیں۔ان کے بقول، وہ معمول کی خبریں پڑھ رہی تھیں جب اچانک ان کی نظریں اسٹوڈیو میں اندر آنے والے طالبان پر پڑیں جس کے بعد وہ خوف زدہ ہو گئیں۔تاہم پروڈیوسر کے دلاسہ دینے کے بعد ان کی ہمت بڑھی جس کے بعد طالبان میڈیا ٹیم کے رکن مولوی عبدالحق حماد اس پروگرام میں ان کے مہمان بنے۔بہشتہ مزید بیان کرتی ہیں کہ پروگرام کے شروع میں طالبان مہمان کے سامنے ان کے دل میں مختلف قسم کے وسوسے پیدا ہو رہے تھے کہ کہیں طالبان کو ان کے سر کے دوپٹے کے اسٹائل پر اعتراض نہ ہو، ان کا لباس کہیں انہیں ناگوار نہ گزرے۔ تاہم جیسے جیسے پروگرام آگے بڑھتا گیا تو انہیں اطمینان ہوتا گیا۔انہوں نے بتایا کہ پروگرام کے آخر میں طالبان مہمان ان کے پاس آئے اور کہا :بہن آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ جس کے بعد ان کا حوصلہ دگنا ہو گیا۔بہشتہ کا کہنا ہے کہ اس دن کے بعد سے دوبارہ انہوں نے کسی طالبان کو اپنے دفتر میں نہیں دیکھا۔ البتہ گلی کوچوں میں ضرور دیکھتی ہیں۔