طالبان کے حملے جاری ،24گھنٹے میں 157 فوجی ہلاک

,

   

Ferty9 Clinic

افغانستان کے 34 میں سے 26 صوبوں میں لڑائی جاری، طالبان کا مزید 2 اضلاع پر کنٹرول، مذاکرات تعطل کا شکار

کابل : ایک ایسے وقت جب افغانستان سے بیرونی فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے طالبان کی پیشقدمی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس دوران درجنوں حکومتی افواج ہلاک ہوئے ہیں اور کئی علاقوں میں انہیں شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔افغانستان میں حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے 7جون پیر کے روز بتایا کہ حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے حملوں میں شدت آنے کے بعد سے حکومتی فورسز کی ’’حیرت انگیز طور پر‘‘ ہلاکتوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومت کے ایک اعلی افسر کے بیان کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ افغانستان کے کل 34 صوبوں میں سے اس وقت 26 صوبوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ اس میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 150 فوجی ہلاک یا پھر شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ اک سینئر عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی 157 ہلاکتیں ہوئی ہیں-افغان وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ حکومتی فورسز نے صوبہ وردک کا اسٹریٹجک علاقہ ضلع نیرک کا قبضہ واپس لینے کے لیے آپریشن شروع کردیا ہے اور یہ علاقہ دارالحکومت کابل سے ایک گھنٹے سے کم فاصلے پر موجود ہے۔سرکاری فورسز کے خلاف حملوں میں اس قدر اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب امریکہ اور ناٹو سمیت بیرونی افواج تقریباً بیس برس افغانستان میں گزارنے کے بعد وہاں سے نکل رہی ہیں۔ افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز اب بھی اتنی مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کر سکیں اور طالبان اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان کے ساتھ سے جھڑپوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ادھر امریکی افواج کا انخلا جاری ہے جو اس برس 11 ستمبر تک افغانستان سے نکل جائیں گی جبکہ جرمنی سمیت دیگر ناٹو فورسز نے بھی یکم مئی سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔افغان حکام کے مطابق جب سے فوجی انخلا کا آغاز ہوا ہے تب سے طالبان نے دو مزید اضلاع پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق اتوار کے روز طالبان نے زبردست حملہ کر کے صوبہ فریاب کے ضلع قیصر پر بھی اپنا کنٹرول حاصل کر لیا جس میں حکومت کے درجنوں فوجی ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی افواج کو بالآخر پیچھے ہٹنا پڑا اورقریب کی ایک پہاڑی پر پناہ لینی پڑی جس پر کنٹرول کے لیے پیر کی رات تک لڑائی جاری تھی۔ اتوار کی رات کو ہی طالبان نے مغربی صوبے غور کے ضلع شہرک کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس لڑائی میں بھی حکومتی فورسز کو زبردست نقصان پہنچا اور اس کے درجنوں فوجی ہلاک ہو گئے۔ تشدد میں اس قدر اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب طالبان اور حکومت کے درمیان بات چیت کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ اس کے لیے فریقین ایک دوسرے پر شہریوں پر حملے بند کرنے میں ناکا م رہنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ مبصرین کو خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر طالبان نے ملک پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا، یا پھر اقتدار میں شریک ہوئے تو پھر خواتین کے حقوق اور دوسرے شہری حقوق کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان شریعت کی تشریح بہت تنگ نظری سے کرتے ہیں۔ فوجی ماہرین نے بھی متنبہ کیا ہے کہ حکومتی فورسز کو اچھی طرح سے تربیت نہیں ملی ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسی فوجی صلاحیت اور تکنیک ہے کہ وہ طالبان کا مقابلہ کر سکیں۔