ظلم کیخلاف آواز اٹھانے والوں پر دہشت گرد کے لیبل

   

Ferty9 Clinic

طارق محمود رائٹر و فلمساز
امریکہ اور برطانیہ میں ان مرد و خواتین خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جو نہتے معصوم و بے قصور فلسطینیوں پرا سرائیل کے ناقابل تصور مظالم کے خلاف آواز اٹھارہے یا پھر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوکر ’’آزاد فلسطین‘‘ کے نعرے بلند کررہے ہیں (حال ہی میں امریکہ نے اعلان کیا ہیکہ اسرائیل مردہ باد کے نعرہ لگانے والوں کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی)۔ ہم بات کرتے ہیں برطانیہ کی جہاں اب ہر اس شخص کو دہشت گرد قرار دینے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے جو ظلم کے خلاف اور خاص طور پر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی ان کی نسلی تطہیر اور نسل کشی کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔ اس طرح کے افراد کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر یونیورسٹیز کے طلبہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں حکومت PALASTINE ACTION تحریک سے جڑے باضمیر نوجوانوں کے خلاف کارروائیوں کو آگے بڑھا رہی ہے اور اسے ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر کوئی تعجب نہیں ہوگا کہ فلسطین ایکشن کے کئی ارکان پہلے ہی جیلوں میں بند ہیں دیگر مقدمات کا سامنا کررہے ہیں تو ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سزائیں سنائے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔ اگرچہ مظلومین و کمزوروں کے حق میں آواز اٹھانے اور سچائی کا ساتھ دینے والوں پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے انہیں جیلوں میں ٹھونسنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اس کے باوجود ہزاروں مرد و خواتین برطانیہ کے کونے کونے میں سڑکوں پر نکلتے ہوئے اسرائیل اور اس کی تائید کرنے والوں کے خلاف نعرے بلند کرکے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام روکنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ برطانیہ میں مظاہرین، احتجاج کی قیادت کرنے والی Palastine Action کے حوالے سے نعرے لگارہے ہیں کہ ہم سب فلسطین ایکشن ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حکومت کا مقصد عوام کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنا ہے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کے جاری قتل عام میں برطانیہ کے اسرائیل کے ساتھ ملوث ہونے کے معاملہ پر پردہ ڈالا جائے۔ برطانوی حکومت نے اس تعلق سے غلط اندازے قائم کرلئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہیکہ 55 فیصد برطانوی شہری غزہ پر اسرائیلی جنگ کے خلاف ہیں ان میں سے 82 فیصد (55 فیصد میں سے) نے پرزور انداز میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں جو کارروائیاں کررہا ہے وہ دراصل فلسطینیوں کا قتل عام ہے۔ اگر برطانوی عوام کے خیالات اور میڈیا کی خبروں، مضامین اور پروگرامس کا منصفانہ جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ میڈیا کے بیانات اور عوام کے خیالات میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ آج جس طرح PALASTIN ACTION سے جڑے نوجوانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا گیا اسی طرح مجھ پر بھی کبھی ایسے ہی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا گیا تھا۔ 1981میں راقم یونائیٹیڈ بلیک یوتھ لیگ کا رکن تھا اور ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ پٹرول بم بنانا قانونی طور پر غلط ہے لیکن ہم اپنی کمیونٹی کے حقوق کی مدافعت اس کے دفاع میں یقین رکھتے ہیں یہاں تک کہ مسلح طریقوں سے بھی اپنی برداری کے دفاع میں یقین رکھتے تھے اور وہ بھی براڈ فورڈ کے فاشسٹوں کی دھمکیوں اور ان کے خطرات سے نمٹنے میں۔ مجھے بھی دیگر 11 افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سزائے عمر قید تک سنائی گئی وہ مقدمہ براڈ فورڈ 12 کیس کے نام سے شہرت اختیار کر گیا تھا۔ اگرچہ ہماری جدوجہد مقامی فاشسٹوں کے خلاف تھی جبکہ PALASTINE ATCTION کی لڑائی ایک مقدس لڑائی ہے۔ یہ لڑائی فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے کئے جارہے قتل عام کو روکنے اور اسرائیل کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی لڑائی ہے اور یہ قتل عام اسرائیل کی نئی فاشسٹوں کی حکومت برطانیہ کی تائید و حمایت سے کررہی ہے۔ ہم نے 1980 میں فاشسٹوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے لیکن PALASTINE ACTION کے ارکان نے ایسا نہیں کیا ہم کروڈ بم بنا کر استعمال بھی کیا کرتے تھے وہ بھی اپنے خلاف برپا کئے جانے والے تشدد پر اور حفاظت خود اختیاری کے تحت جبکہ PALASTINE ACTION نے عدم تشدد کی راہ اپنائی۔ پرامن احتجاج کا طریقہ اپنایا۔ اس مہذب دنیا میں نہتے اور کمزور انسانوں کے قتل عام کیلئے کوئی جگہ نہیں ویسے بھی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں خاص طور پر فرانسسکا البانیئر نے بار بار اس بات کی وضاحت کی ہیکہ جن پر اور جن کی سرزمین پر اسرائیل قابض ہے اسرائیل کو حفاظت خوداختیاری کے تحت ان کا قتل عام کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔