ظہران ممدانی امریکہ میں غریبوںکا لیڈر

   

روش کمار
آج کل ساری دنیا میں ظہران ممدانی کے چرچے ہیں۔ وہ نیویارک کے میئر منتخب ہوئے حالانکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور دنیا کے سب سے متمول شخص ایلون مسک نے ان کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون ہیں ظہران ممدانی؟ اور جنھیں جتانے کے لئے نیویارک کے عوام سڑکوں پر اُتر گئے۔ آپ کو جاننا چاہئے کہ ظہران ممدانی کون ہیں؟ جن کے خلاف نیویارک کے ارب پتی متحد ہوگئے کیوں کہ وہ امیروں پر ٹیکس عائد کرنے اور غریبوں کو اچھی زندگی دینے کی بات کرتے ہیں۔ عوام کے پیسے سے امیروں کو ہرانے والا یہ لیڈر کون ہے؟ دنیا کے سب سے امیر اور سب سے بڑے شہروں میں شامل ہے نیویارک اور وہاں غریبوں کا ایک لیڈر کیسے آگیا؟ ان کی جیب میں دس ہزار ڈالکر نہیں بلکہ ان کی غربت کی وجوہات بتاکر اس کا حل کیسے ہو اس کی بات کرکے الیکشن جیت گیا۔ ظہران ممدانی کی جیت امریکہ کے لئے بڑا واقعہ ہے بڑی تبدیلی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جو 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب پنڈت نہرو نے ہندوستان کے لئے جو محسوس کیا تھا اسی کا اظہار کیا۔ نیویارک کے میئر کا الیکشن جیتنے والے ممدانی نہرو کے تاریخی خطاب کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہیں جب نہرو نے کہا تھا کہ کسی بھی ملک کی تاریخ میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں جب وہ پرانے کو خیرباد کہہ کر نئے کو قبول کرتا ہے۔ نیویارک نے ممدانی کو منتخب کرکے وہی کیا ہے۔ نہرو کا ذکر ہندوستان میں کسی کو اچھا نہیں لگے گا، آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ 2014ء سے کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جب ہندوستان میں نہرو کی توہین نہ کی گئی ہو، ان کے تئیں نفرت پھیلانے کے لئے جھوٹ کا سہارا نہ لیا گیا ہو۔ گودی میڈیا نے نہرو کو ایک مجرم کی طرح پیش کیا مگر نیویارک میں ممدانی کا نہرو کو یاد کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔
بہار اسمبلی انتخابات کا نتیجہ 14 نومبر کو آرہا ہے جس دن پنڈت نہرو کا یوم پیدائش ہے اور یہ حسن اتفاق ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا، انتظار کرلیجئے۔ نہرو کو بے عزت کرنے کا سلسلہ کسی دن نہیں رُکتا ہے مگر نیویارک میں ظہران ممدانی نے نہرو کا نام لے کر بتادیا کہ نہرو واٹس ایپ یونیورسٹی کی محنت سے اس کے جھوٹ سے نہیں مٹائے جاسکتے۔ ماہرین کے خیال میں ممدانی کی کامیابی امریکہ اور امریکی سیاست کا ایک اہم موڑ ہے۔ نیویارک میں پچھلے ماہ سے ایک نیا جوش و جذبہ چل رہا ہے، توانائی دیکھی جارہی ہے۔ نیویارک میں دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکہ میں ایسا ہوا ہے تو ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسی ہی بہت ساری چیزیں ہوسکتی ہیں، بدلی جاسکتی ہیں جس کے لئے ظہران نے ابھی کافی کچھ کہا۔ نہرو جی کا بھی حوالہ دیا ہے۔ آج کل تو ہمارے اپنے ملک ہندوستان میں نہرو جی کا حوالہ صرف غلط چیزوں میں گمراہ کن معلومات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ظہران نے نہرو جی کا جس طرح حوالہ دیا اس سے ہم میں ایک نئی اُمید جاگی ہے۔ ساری دنیا میں ظہران ممدانی کی انتخابی مہم اور ان کی کامیابی کو لے کر کافی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس دور میں جب طرح طرح کی نفرت کے سہارے نیتا بناء کام کئے الیکشن پر الیکشن جیت رہے ہیں عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ اُمید ختم ہوچکی تھی کہ کوئی اس آندھی کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ ممدانی نے سب کو غلط ثابت کیا۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد جب ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈران حوصلہ ہار گئے، میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، ٹرمپ کی باتوں کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں بچا اسی امریکہ میں اِس خالی جگہ کو بھرنے کے لئے ظہران ممدانی سڑکوں پر اُترتے ہیں اور پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ آپ نے ٹرمپ کو ووٹ کیوں دیا؟ ڈیموکریٹک پارٹی سے کیوں ناراض ہیں؟ آپ کی کیا مانگ ہے؟ تب پتہ چلا کہ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیروں سے قربت اور غریبوں سے دوری کے نتیجہ میں لوگ مایوس ہوچکے تھے اور ووٹ دینے نہیں گئے۔ ممدانی کا یہ ویڈیو اپنے آپ میں انقلابی ثابت ہوا۔ اس نے ڈیموکریٹ پارٹی کو اشارہ کردیا کہ آپ پیسے والوں کی گود میں بیٹھ کر اپنے رائے دہندوں کے حقوق سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ممدانی کی مہم آگ کی لپیٹوں کی طرح نیویارک اور پوری دنیا میں پھیلنے لگی۔ ٹرمپ نے ایمگرنٹ یعنی تارکین وطن کو مارنا بھگانا اور دھتکارنا شروع کردیا۔ امریکہ میں رہنے والے الگ الگ ملکوں کے لوگ ٹرمپ کی بنائی آئی سی ای پولیس کے خوف میں جینے لگے۔ ہندوستانی تارکین وطن کو ہتھکڑیاں پہناکر امریکہ سے واپس بھیج دیا گیا۔ وزیراعظم مودی ان کی عزت نفس کے سوال کو لے کر ٹرمپ کے سامنے دو لفظ بھی نہیں کہہ پائے۔ جب بڑے بڑے لیڈر ٹرمپ کی نفرت کی سیاست کے خلاف بھاگ کھڑے ہوئے ممدانی میدان میں اُتر گئے اور الیکشن جیت گئے۔ نیویارک کو ایمگرینٹس کا شہر مانا جاتا ہے۔ 150 سے زائد ملکوں کے لوگ اس شہر میں رہتے ہیں۔ ٹرمپ نے ایمگرینٹس کے خلاف خوف و دہشت پھیلاکر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اسی ٹرمپ کے امریکہ میں ظہران ممدانی ایمگرینٹ کی پہچان کے ساتھ انتخابات جیت جاتے ہیں اور ان کی پہچان کا تحفظ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ بہار کے انتخابات میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کے لئے درانداز آیا درانداز آیا درانداز آیا کا کھیل کھیلا گیا۔ ایس آئی آر کے بارے میں کہا گیا کہ درانداز پکڑیں گے۔ اس سے بھی بدتر صورتحال تھی امریکہ میں لیکن یہ بھی امریکہ کی خوبی ہے کہ وہاں کئی ملکوں کے لوگ رہ سکتے ہیں اور امریکہ کے لئے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ہندوستانی نژاد ممدانی نے نیویارک شہر کے لئے خواب دیکھا اور نیویارک کے شہری لوگوں نے ان کے خوابوں پر مہر لگادی۔ یہ صرف امریکہ میں ہوسکتا ہے۔ ممدانی نے نیویارک کے ہر شہری سے کہاکہ یہ آپ کا شہر ہے، یہ آپ کی جمہوریت ہے اس لئے ممدانی کی مہم کو عوام نے اہمیت دی۔ پریم چند کہتے ہیں ’’بگاڑ کے ڈر سے اپمان کی بات نہیں کہو گے‘‘ ممدانی نے یہ نہیں سوچا کہ نیویارک کی یہودی لابی ان کی مخالفت کرے گی تو وہ چناؤ ہار جائیں گے۔ اس ڈر کو جھٹک کر فلسطین کے لئے اُنھوں نے آواز اُٹھائی۔ نیتن یاہو کو جنگی مجرم کہا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ نیویارک میں ہندوستانی نژاد لوگ رہتے ہیں انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں گجرات فسادات کا ذکر کیا جس کا ذکر ہندوستان میں سیاسی قائدین ڈر کے مارے نہیں کرتے کہ ان کے خلاف کارروائی نہ ہوجائے۔ ممدانی نے مہم کے دوران وزیراعظم مودی کی بھی مذمت کی، انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد بھی انھیں ہندوستانی نژاد امریکیوں کی تائید و حمایت ملی اور یہودیوں کی بھی تائید ملی۔ ظہران ممدانی کے جیتنے پر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ اگر کوئی یہودی ایسا ہے جو یہودیوں سے نفرت کرنے والے ممدانی کے حق میں ووٹ استعمال کرتا ہے تو وہ بے وقوف آدمی ہے۔ ممدانی کے خطاب کے بعد جس دوران ان کا انتظار ہورہا تھا باہر کھڑے لوگ فلسطین کی آزادی کے نعرے لگارہے تھے۔ اندر اپنے خطاب میں ظہران ممدانی نے کہا نیویارک یہودیوں کا بھی شہر ہے اسے ان کے لئے محفوظ بنایا جائے گا اور یہ ان 10 لاکھ مسلمانوں کا بھی شہر ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ مسلم پہچان کو لے کر ممدانی کبھی نہیں سوچتے۔ ہندوستان میں کئی مسلم لیڈران اب اپنی اپنی پارٹیوں میں نہیں بولتے، انھیں ایک حکمت عملی کے تحت چپ کرادیا جاتا ہے اور وہ بھی خود سے چپ ہونے لگے ہیں۔ ان کی پارٹی کے لیڈران بھی مسلمانوں کے ساتھ ہورہی گندی سیاست کے خلاف نام لے کر کھل کر نہیں بولتے۔ یہ میں سیکولر اور اپوزیشن جماعتوں کی بھی بات کررہا ہوں بہار کے انتخابات میں آپ ٹکٹوں کی تقسیم کو دیکھئے ہر الیکشن ٹکٹ دینے کے مرحلہ پر ہی مسلمانوں کو سیاست میں کم کردینے کا رجحان بن چکا ہے۔ الیکشن ہار جائیں گے۔ الگ تھلگ کردیئے جائیں گے اس ڈر سے مسلمانوں کو ٹکٹس کم دیئے جارہے ہیں بجائے اس کے اس علاقہ کے عوام کو سامنے سے اس کا جواب دیا جائے، سمجھایا جائے جیسے ممدانی سامنے سے نیویارک کو جواب دیتے آئے ہیں۔ انھوں نے اپنی پہچان کبھی نہیں چھپائی اور اس کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ عوام کو بھروسہ دلایا کہ وہ ایک مسلمان ہیں لیکن میئر سب کے ہوں گے۔ جیسے جیسے ممدانی کی مہم لوگوں کے درمیان پہنچنے لگی ان کے مسلمان ہونے کو لے کر ایک مسئلہ بنایا جانے لگا۔ جواب میں ممدانی نے کسی بھی مذہب کے خلاف بُری بات نہیں کی اور نہ ہی سماج کے کسی طبقہ کو نفرت کی نظر سے دیکھا۔ کہا گیا کہ وہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں لیکن ممدانی نے کہاکہ یہ سچ نہیں ہے۔ وہ غزہ میں ہورہے قتل عام کے خلاف ہیں۔ نیتن یاہو کے خلاف ہیں انھیں جنگی مجرم مانتے ہیں۔ اگر وہ نیویارک آئیں گے تو انھیں گرفتار کرلیں گے۔ جس وقت یہودی ووٹر کو راغب کرنے کے لئے ممدانی کے مخالفین کھل کر بات کررہے تھے کہ گھومنے کے لئے اسرائیل جانا چاہیں گے تب ممدانی نے کہاکہ وہ نیویارک میں ہی رہیں گے۔ ممدانی کو ٹرال بھی کیاگیا کہ وہ نیویارک میں شرعی قوانین لائیں گے۔ کہا گیا کہ وہ دہشت گردوں کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ 9/11 کے حملوں سے جوڑا گیا۔ مخالفین نے یہاں تک کہاکہ اگر نیویارک میں پھر سے 9/11 جیسا کچھ ہوا تو ممدانی تالیاں بجائیں گے۔ سوشل میڈیا پر رائٹ ونگ لیڈروں اور مبصرین نے کہاکہ ممدانی کو امریکہ سے نکال دیا جائے جبکہ وہ 2018ء میں ہی نیچرلائز سٹیزن بن گئے۔ ریپبلکن پارٹی کے لیڈروں نے مطالبہ کیاکہ ممدانی کو واپس یوگانڈا بھیج دیا جائے۔ نہیں تو وہ نیویارک میں شرعی قوانین نافذ کریں گے۔ خود ٹرمپ نے ممدانی کے بارے میں بہت بُری باتیں کی یہاں تک کہہ دیا کہ اگر جیتے تو میں اپنے پسندیدہ شہر کو مقررہ فنڈ کے علاوہ کوئی فنڈ نہیں دوں گا۔ ٹرمپ ممدانی سے اس قدر چڑگئے کہ آزاد امیدوار Cuomoکی تائید کردی جو ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں شامل ہوئے اور ممدانی کو کمیونسٹ کہنے لگے۔ ایلون مسک نے ممدانی کے نام کا مذاق اُڑایا لیکن سب نے منہ کی کھائی۔