عثمان شہید ایڈوکیٹ مرحوم: اپنی ذات میں ایک انجمن

   

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
کارخانہ قدرت میں حیات و ممات کا سلسلہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ خالق کائنات نے دنیا کی ہر شئے کو فانی بنایا ہے۔ باقی رہنے والی ذات صرف ربِ ذوالجلال کی ہے۔ انسان کو بھی ایک معینہ مدت کے لیے پروردگار عالم دنیا میں بھیجتا ہے اور وقت مقررہ پر پھر اپنے پاس واپس طلب کرلیتا ہے۔ قضاء اور قدر کے فیصلے مشیت یزدی کے تحت ہوتے ہیں۔ اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے چاہنے والے غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ غم اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب کوئی ایسی شخصیت انتقال کرجاتی ہے جو ملک و ملت کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہو۔ جناب عثمان شہید ایڈوکیٹ مرحوم کا شمار بھی حیدرآباد کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کے سنگلاخ میدان میں کئی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو منوایا۔ مرحوم عثمان شہید کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک ممتاز قانون داں کے علاوہ شعلہ بیان مقرر اور بہترین ادیب بھی تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ کانگریس کا بھی انہوں نے ساتھ دیا۔ پھر کل ہند مجلس اتحادالمسلمین میں باضابطہ شامل ہوکر بلدی حلقہ سلطان شاہی سے کونسلر بھی منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ کے لیے بلدیہ کی اسٹانڈنگ کمیٹی کے صدرنشین بھی رہے۔ اسی مختصر دور میں انہوںنے مدینہ بلڈنگ کے سامنے ’’مادر مہربان اردو‘‘ مینار تعمیر کرایا۔ بعد میں انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پیشہ وکالت کے ساتھ سماجی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران انہوں نے روزنامہ سیاست کے سنڈے ایڈیشن میں اہم موضوعات پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ سلسلہ ان کی علالت کے دور میں بھی چلتا رہا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مضامین ان کے لیے سکون اور راحت کا ذریعہ بھی بنے۔ وہ اپنی بیماری کو ملت کی کسمپرسی کو دیکھ کر کچھ دیر کے لیے بھول جاتے تھے۔ قارئین بڑے شوق سے ان کے مضامین پڑھتے تھے۔ ان کے مضامین میں حرکت و عمل کا پیغام ہوتا تھا۔ وہ اپنی مظلوم قوم کو آخری وقت تک اپنے مضامین کے ذریعہ جھنجھوڑتے رہے اور انہیں بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمان ایک مقصد حیات کے ساتھ دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ مرحوم عثمان شہید کی ذہنی تربیت مجلس تعمیر ملت کے بانی جناب سید خلیل اللہ حسینیؒ نے کی۔ اس کو مزید جلا بخشنے میں جناب سید غوث خاموشیؒ کا بڑا دخل رہا ہے۔ محمد عثمان کو ’’عثمان شہید‘‘ کا لقب دینے والی یہی شخصیت تھی۔ ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر کی حیثیت سے مرحوم عثمان شہید نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر اپنی سخت ترین محنت کے ذریعہ وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ مرحوم عثمان شہید جس کسی کا کیس لیتے تو پوری ذمہ داری اور ایمان داری کیساتھ اس کی پیروی کرتے اور اپنے موکل کو انصاف دلاتے۔ اس کے لیے وہ ان لوگوں سے بھاری فیس بھی لیتے جو فیس ادا کرنے کے موقف میں ہوتے۔ اگر کسی کی مالی حالت بہت ہی کمزور ہوتی تو مرحوم اسی دیانتداری کے ساتھ بغیر فیس لیے مقدمہ کی پیروی کرتے اور غریب کی دعا لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس سرمایہ داروں کے علاوہ بے سہارا اور غریب افراد بھی اپنے مقدمات لے کر آتے۔
جناب عثمان شہید ایڈوکیٹ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو محض اپنے پیشہ وکالت تک محدود نہیں رکھا بلکہ سماجی اور ملی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ جہاں کہیں ان کی ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ایک دل درد مند رکھتے تھے اور ہمیشہ ملت کی ترقی کے آرزومند تھے۔ مرحوم عثمان شہید ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ مرحوم نے اردو کی مشہور تفاسیر و تراجم سے استفادہ کرتے ہوئے یہ کار خیر انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی (سابق صدر شعبہ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی) نے ’’کچھ قرآنی تعلیمات کے بارے میں‘‘ بطور تعارف لکھتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’اس کتاب کی ترتیب سے موصوف نے ثابت کردیا کہ ان کے پہلو میں ایک ایمان و ایقان سے لبریز دل بھی ہے، جو ہر آن ہر لمحہ مسلمانوں کی عزت و عظمت چاہتا ہے۔ قرآنی تعلیمات کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں تفکرون تدبرون کی جہت کو محترم ایڈوکیٹ صاحب نے مقدم رکھا ہے‘‘ حقیقت واقعہ بھی یہی ہے کہ قرآن مجید کا پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ اس کی آیات پر تدبر اور تفکر ایمان کا تقاضا ہے۔ کتاب کے حرف آغاز کے طور پر خود مرحوم عثمان شہید نے لکھا کہ ’’قرآنی تعلیمات سے عدم واقفیت اور ان پر عدم عمل آوری نے مسلمانوں کو مسند قیادت سے دور کردیا۔ مسلمانوں میں متدد مسلکی جھگڑے، نفس پرستی، انا پرستی اور دنیا سے محبت یہ سب قرآن سے دور ہونے کا نتیجہ ہے‘‘ مرحوم کی دینی، ملی اور سماجی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن ان کی یہ کتاب ان شاء اللہ ان کے لیے ذریعہ نجات بنے گی۔ ’’قرآنی تعلیمات‘‘ کا رسماجراء بدست محترم نواب زاہد علی خان، ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ 17 مئی 2011ء اردو ہال، حمایت نگر حیدرآباد میں ہوا تھا۔ اس تقریب کی صدارت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے فرمائی تھی۔ اس پروقار تقریب میں شہر کی کئی معزز شخصیتیں بطور مہمان شریک ہوئی تھیں۔ راقم السطور کو بھی مرحوم عثمان شہید صاحب نے ازراہِ محبت پروگرام میں بحیثیت مقرر شامل کیا تھا۔ عثمان شہید ایڈوکیٹ مرحوم کا ایک اہم کارنامہ یہ رہا کہ وہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہے۔ مرحوم عثمان شہید اپنی حیات مستعار مکمل کرکے اس دارِفانی سے دارالبقاء کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں ان کا دنیا سے رخصت ہوجاناملت کا عظیم نقصان ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں مسلم قانون دانوں کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ہردن مسلمانوں کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں عثمان شہید مرحوم جیسے بے لوث اور بے باک قانون داں پیدا ہوں جو نازک لمحات میں مسلمانوں کی قانونی رہبری کرسکیں اور ملت کو ظالموں کے ظلم سے بچانے میں مدد کرسکیں۔