عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے

,

   

بیٹی بچاؤ … مودی حکومت میں غیر محفوظ
اسلامی قوانین … جرائم روکنے کا واحد ذریعہ

رشیدالدین
’’ہندوستان میں حوا کی بیٹی محفوظ نہیں‘‘ ملک کے اخبارات ، نیوز چیانلس اور سوشیل میڈیا کا مشاہدہ کریں تو یہی تاثر ملے گا کہ خونخوار درندے معصوم لڑکیوں کو ہوس کا شکار بناکر ان کا قتل کرتے ہوئے ثبوت مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کولکتہ کے ہاسپٹل میں پیش آئے شرمناک واقعہ نے سماج کو شرمسار کردیا ہے۔ ملک بھر میں کولکتہ واقعہ کے خلاف جاری احتجاج کے دوران دیگر ریاستوں میں اسی طرح کے واقعات منظر عام پر آئے۔ شیطانیت اور گھناؤنے پن کی انتہا ہوگئی کہ کمسن لڑکیوں کو بھی ہوس کا شکار بنایا گیا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یا پھر کچھ اور کہ سماج میں کسی واقعہ پر جب احتجاج کی نوبت آتی ہے تو اسی طرح کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد میں قتل کے بڑھتے واقعات نے حکومت اور سیول سوسائٹی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ عوام کی تشویش کے دوران اچانک قتل کے واقعات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی جرم کی زیادہ تشہیر مجرمین کے حوصلوں کو بلند کردیتی ہے۔ کولکتہ واقعہ کے خلاف ملک بھر میں ڈاکٹرس کا احتجاج جاری ہے اور سپریم کورٹ کو مداخلت کرتے ہوئے قومی سطح پر ٹاسک فورس کی تشکیل کا اعلان کرنا پڑا۔ کولکتہ واقعہ پر سیول سوسائٹی کا احتجاج فطری ہے لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں پیش آئے واقعات پر خاموشی باعث حیرت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہوس پرستی کے واقعات کا تدارک کیسے ہو۔ عام طور پر جرائم کی روک تھام کیلئے پولیس اور حکومت کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں جرائم پر قابو پانا صرف پولیس اور حکومت کے بس کی بات نہیں۔ سماج جسے سیول سوسائٹی بھی کہا جاتا ہے، اسے بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوتا۔ جب تک سماج میں جرائم کے خلاف نفرت کا احساس اجاگر نہ ہو ، اس وقت تک خواتین کی عزت و ناموس کا تحفظ ممکن نہیں۔ پولیس اور حکومت کی جانب سے ہر شہری کو محافظ فراہم نہیں کیا جاسکتا لیکن برائیوں اور جرائم سے نفرت کا جذبہ ہی پولیس کے کام کو آسان بناسکتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جرائم کے خلاف احتجاج محض ضابطہ کی تکمیل بن چکا ہے۔ کسی بھی واقعہ کے خلاف اچانک جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور چند دن ناراضگی اور برہمی کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کولکتہ طرز کے واقعات کے خلاف ملک نے کئی بڑے احتجاج دیکھے ہیں۔ دہلی سے لے کر گلی تک خواتین کے تحفظ کے نعرے لگائے گئے اور پھر پانی کے بلبلے کی طرح احتجاج ختم ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج ختم کیوں کیا گیا ؟ کیا خواتین کو تحفظ اور متاثرین کو انصاف مل گیا ؟ لیکن پولیس اور سیاستدانوں کے تیقن پر احتجاج سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ۔ خواتین کے حق میں احتجاج ویسے بھی ایک فیشن بن چکا ہے جو محض چند دن تک جاری رہتا ہے ۔ حیرت تو ملک کے عدالتی اور انصاف رسانی کے نظام پر ہوتی ہے جہاں خاطیوں کو ثبوت اور گواہی کی کمی کی بنیاد پر بری کردیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عدالتوں میں پولیس مجرمین کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے تو پھر قانون کا خوف باقی کہاں رہے گا۔ ملک میں کئی سنگین واقعات ایسے ہیں جن کے ملزمین کھلے عام گھوم رہے ہیں اور برسوں سے عدالتوں میں صرف مقدمات کی تاریخ تبدیل ہورہی ہے۔ ملزمین کو سیاسی سرپرستی نے بھی قانون اور انصاف کے قتل کا کام کیا ہے۔ گجرات فسادات میں خواتین کی عزت سے کھیلنے والوں کا سنگھ پریوار نے سنمان کیا ۔ بلقیس بانو کیس کے ملزمین کو گجرات حکومت نے سزا کی تکمیل سے قبل رہا کردیا تھا اور سپریم کورٹ کو مداخلت کرتے ہوئے دوبارہ جیل بھیجنا پڑا۔ عدالتوں کے ذریعہ انصاف رسانی کے عمل میں تیزی پیدا کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے ۔ سمینار ، اجلاس اور کانفرنس کے موقع پر قانون داں حضرات کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ جب عملی اقدامات کا معاملہ آتا ہے تو عدلیہ کا سست روی کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ دراصل عدلیہ میں مقدمات کی کثرت بھی عدالتوں پر اضافی بوجھ کی طرح ہے۔ چارج شیٹ کے بعد ٹرائل کے مرحلہ تک اکثر معاملات میں گواہ ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض کیسس میں پولیس بھی ملزمین کی مدد کرتی ہے جس کے نتیجہ میں جرم کے باوجود وہ با عزت بری ہوجاتے ہیں۔ خواتین پر مظالم اور خاص طور پر ریپ اور قتل کے مقدمات کی عاجلانہ سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹس کی ضرورت ہے۔ ایسے مقدمات کے فیصلہ کیلئے مخصوص مدت کا تعین کیا جائے ۔ جب تک حکومت اور پولیس سزا دلانے میں سنجیدہ نہ ہو ، اس وقت تک احتجاج اور ٹاسک فورس کی تشکیل سے کچھ نہیں ہوگا۔ جرائم کی روک تھام کیلئے قانون میں سزا کی گنجائش موجود ہے لیکن جب تک قانون کا نفاذ نہ ہو ، اس وقت تک خوف پیدا نہیں ہوسکتا۔
نریندر مودی نے ’’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ نعرہ محض زبانی اور کاغذی بن چکا ہے ۔ ملک میں بیٹیوں کو بچانے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے مودی حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم نے کولکتہ اور دیگر شہروں کے واقعات پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا۔ اتنا ہی نہیں نریندر مودی کابینہ میں شامل خاتون وزراء کو بھی ملک کی بیٹیوں کا خیال نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ بیٹی کا دکھ درد تو وہی سمجھ سکتا ہے جو ایک باپ ہو۔ نریندر مودی نے ریکارڈ کے مطابق شادی تو ضرور کی لیکن فی الوقت وہ تنہا ہیں اور گھر دار کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم خود حالیہ واقعات پر ہنگامی اجلاس طلب کرتے اور ریاستوں کو ہدایات جاری کی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب حکمرانوں کو بیٹیوں کے تحفظ کی فکر نہ ہو تو پھر سیول سوسائٹی کے احتجاج سے کوئی فائدہ نہیں۔ ویسے بھی آج کل احتجاج سیاسی رنگ اختیار کرچکے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے ان ریاستوں میں احتجاج کیا جارہا ہے جہاں غیر بی جے پی حکومت ہے جبکہ بی جے پی ریاستوں میں بیٹیوں کی توہین پر سناٹا طاری ہے۔ کولکتہ کا معاملہ یقیناً سنگین ہے لیکن اس سے زیادہ سنگین واقعات بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آئے لیکن بی جے پی کا مقصد ممتا بنرجی کو نشانہ بنانا ہے ، لہذا کولکتہ میں احتجاج کو ہوا دی جارہی ہے۔ ظلم کسی بھی بیٹی پر ہو وہ ظلم ہے لیکن واقعات کو فرقہ وارانہ عینک سے دیکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ملک بھر میں صرف کولکتہ واقعہ کا ذکر کیا جارہا ہے جبکہ اتراکھنڈ میں ایک مسلم نرس کے ساتھ ریپ اور قتل کا سنگین معاملہ نظر انداز کردیا گیا ۔ حالانکہ جرم کی سنگینی کولکتہ واقعہ سے کم نہیں ہے لیکن متاثرہ لڑکی کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے اور چونکہ یہ واقعہ بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں پیش آیا ، لہذا میڈیا پر بھی کنٹرول کرلیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے جب کولکتہ واقعہ کا نوٹ لیا ہے تو اسے چاہئے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں پیش آئے واقعات پر بھی ہدایات جاری کرے۔ سپریم کورٹ ڈاکٹرس کے تحفظ کے لئے ٹاسک فورس کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر عمل آوری کی ہدایت دے سکتا ہے لیکن یہ تجاویز قانون سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جب قانون میں جرم کیلئے سزا موجود ہے تو پھر عدلیہ کو چاہئے کہ وہ مجرمین میں خوف پیدا کرنے کیلئے سختی سے قانون پر عمل کرے۔ سابق میں بھی احتجاج ہوتے رہے لیکن خواتین پر مظالم کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اب جبکہ ملک کے موجودہ قوانین خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوچکے ہیں تو آخری حل شرعی قوانین کا نفاذ ہے۔ اگر جرائم کو روکنا ہو تو شرعی قوانین کو نافذ کریں تو از خود جرائم کی شرح کم ہوگی۔ صرف ریپ اور قتل ہی نہیں بلکہ دیگر جرائم کے سلسلہ میں اسلامی قوانین کو کم از کم ایک سال تک بھی نافذ کیا جائے تو ہندوستان میں خواتین محفوظ ہوجائیں گی۔ مسلم اور اسلامی ممالک میں جرائم کی شرح میں کمی کی اہم وجہ شرعی قوانین کے مطابق سزائیں ہیں۔ عرب ممالک میں معمولی جرم کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ہندوستان میں بھلے ہی مودی حکومت ہو لیکن اگر ملک میں جرائم کو کم کرنا چاہتے ہیں تو تجرباتی طور پر سہی شرعی قوانین کو نافذ کریں لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ شریعت اور اسلام کی ہر موڑ پر مخالفت کی جاتی ہے ۔ مودی حکومت نے شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے کئی قوانین منظور کئے ہیں۔ طلاق ثلاثہ کی تنسیخ کا قانون شریعت میں مداخلت ہے۔ اب مودی حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی تیاری کر رہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے کٹر مخالفین کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق حد نافذ کرنے سے جرائم کی شرح میں کمی ہوگی اور ملک کی بیٹیاں محفوظ رہیں گی اور مودی کا ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کا نعرہ سچ ثابت ہوگا۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
عدالتوں ہی سے انصاف سرخرو ہے مگر
عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے