تبلیغی جماعت ، گاؤ کشی اور نفرت یا کسی بھی جرم پر مسلمانوں پر الزام تراشی ، فرضی خبروں کی ترسیل پر توجہ
حیدرآباد۔28مئی (سیاست نیوز) ہندستانی ذرائع ابلاغ ادارے جو کہ ملک میں مسلمانوں کو ہر منفی پروپگنڈہ کا شکار بنا رہے ہیں وہ دراصل انگریزوں کی جانب سے چلائے گئے مخالف یہود پروپگنڈہ کے طرز پر کام کر رہے ہیں۔یوروپ میں عیسائیوں نے مخالف یہودی پروپگنڈہ کیلئے جو حربے اختیار کئے تھے وہی حربے ہندستان میں ذرائع ابلاغ اداروں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کئے جا رہے ہیں۔تبلیغی جماعت کے مولانا سعد کا واقعہ ہو یا گاؤ کشی کے نام پر پھلائی جانے والی نفرت ہو یا پھر کسی بھی جرم کیلئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انہیں بدنام کرنا نفرت پر مبنی خبروں کی ترسیل کے ذمہ دار اداروں کا مشغلہ بن چکا ہے۔1943 میں نازی پروپگنڈہ بھی اسی طرح چلایاگیا تھا اور ہر مجرمانہ سرگرمی اور جنگی جنون کیلئے یہودیوں کو ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا تھا۔گوپال گنج میں 15سالہ بچہ کے غرقاب ہونے کے سبب ہونے والی موت کو بھی 40 دن بعد فرضی خبروں کے محرک ادارے کی جانب سے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بدنام کیا جانے لگا۔اسی طرح بے بنیاد خبروں کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے کئی واقعات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جن میں کورونا وائرس کو پھیلانے کیلئے تبیلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش سے لیکر امیر جماعت مولانا سعد کو نشانہ بنانے کی کوششیں تک شامل ہیں۔بہار کے ضلع گوپال گنج اور برطانیہ کے شہر لنکن میں کوئی مماثلت نہیں ہے اور دونوں کافی دور ہیں لیکن 765سال قبل 1255میں جو واقعہ لنکن میں پیش آیا تھا ایسے ہی واقعہ کی خبریں گوپال گنج میں بھی اڑائی جانے لگی ہیں۔لنکن میں جہاں ایک 9سالہ بچہ جو کہ عیسائی تھا کنویں میں غرقاب ہوگیا تھا اور ایک ماہ بعد جب اس بات کی اطلاع ملی کہ اس کنویں کا مالک یہودی ہے تو بچہ کی موت کیلئے یہودی کو ذمہ دار قراردیاجانے لگا اور کہا جانے لگا کہ یہودیوں نے مذہبی رسومات کی انجام دہی کیلئے عیسائی لڑکے کا قتل کیا ہے۔۔اسی طرح گوپال گنج میں جاریہ سال 28مارچ کو ایک 15 سال کے نوجوان کی موت غرقاب ہونے سے واقع ہوئی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی یہ بات واضح ہے لیکن 40دن بعد یہ دعوی کیا جانے لگا کہ اس نوجوان کو مذہبی رسومات کی انجام دہی کیلئے مسلمانوں نے قتل کیا ہے۔اسی نظریہ کو دوبارہ فروغ دیا جا رہاہے ۔
